لاہور کی خصوصی عدالت نے وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلی حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت میں 28 مئی تک توسیع کر دی جبکہ سپیشل سینٹرل کورٹ نے سلمان شہباز، طاہر نقوی اور ملک مقصود کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے۔
واضح رہے کہ لاہور کی خصوصی عدالت میں ہفتے کو وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف ایف آئی اے کے 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ ریفرنس کی سماعت ہوئی جس میں وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے صاحب زادے وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز پیش ہوئے۔
سپیشل پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے کہا کہ اس مقدمے میں تین ملزمان، سلمان شہباز، مقصود اور طاہر نقوی، اشتہاری ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
عدالت نے سوال کیا کہ پراسیکیوشن چار ماہ کیوں خاموش رہی؟ اس پر سپیشل پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے کہا کہ میں پراسیکیوشن کی طرف سے پیش ہوا ہوں اور یہی گزارش ہے کہ چالان میں اشتہاری ملزموں کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی جائے۔
عدالت نے سلمان شہباز سمیت دیگر کو اشتہاری قرار دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
سماعت سے قبل سکیورٹی مسائل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے خصوصی عدالت کے جج اعجاز اعوان نے کہا کہ ان کی گاڑی کو بھی روکا گیا، جبکہ وکلا اور ملزمان کو بھی عدالت کے احاطے میں آنے نہیں دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ عدالت کا ایک وقار ہے، وزیر اعظم کو دیکھنا چاہیے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ وہ جیسے ہی آئے انہوں نے کہا کہ صحافیوں کو بھی اندر جانے کی اجازت دی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ بطور ملزم خود بھی باہر کھڑے رہے۔
سکیورٹی پر جج اور وزیر اعظم کے درمیان مکالمے میں جج نے کہا کہ ججوں، وکلا اور ملزمان کو عدالت کے باہر روکنے کی تحقیقات ہونی چاہییں۔
اس پر وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ تمام افراد کو روکنے پر مکمل تحقیقات ہوں گی۔
انہوں نے ایس پی سکیورٹی کو پیش ہونے کا حکم، جبکہ عدالت نے ایس پی سکیورٹی کو شو کاز نوٹس جاری کیا۔
ایس پی کاظمی نے عدالت میں پیش ہو کر کہا کہ کوآرڈینیشن میں مسئلہ ہوا ہے، اور عدالت کا مکمل احترام ہو گا۔
خصوصی عدالت کے جج نے ان سے کہا کہ تحریری طور پر لکھ کر دیں کس نے عدالت کی گاڑی روکی۔
سماعت میں شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ ان کے موکل پر 2008 سے 2018 تک مبینہ جرم میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا۔
ان کے بقول وقوعہ کی ایف آئی آر بلاجواز تاخیر سے درج کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ چالان جب سامنے آئے گا تو استغاثہ خود ہی کئی چیزیں ختم کر دے گا۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کی آمدنی میں چار ارب روپے کی رقم کی وضاحت چینی کے کاروبار سے ثابت ہوئی ہے مگر مشتاق چینی کا بیان صفحہ مثل کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ چار ارب روپے جن کا تعلق ایف آئی آر میں درج متن سے ہے اس کے لیجر کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جن رقوم کا ذکر ایف آئی آر میں ہے ان کے اکائونٹس کی ترسیلات کی تفصیلات اکٹھی ہی نہیں کی گئیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے عدالت میں کہا کہ ان کے خلاف رشوت، کرپشن کی تحقیقات اے آر یو، نیب اور این سی اے نے کیں اور انہیں کچھ بھی نہیں ملا۔ ’میں ان کا رشتہ دار تو نہیں تھا۔‘
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’خدانخواستہ میں نے کرپشن کی ہوتی تو میں اس عدالت کے سامنے نہ ہوتا۔‘
کیس ہے کیا؟
لاہور کی خصوصی سینٹرل عدالت میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔
عدالت میں ایف آئی اے کی جانب سے جمع کروانے جانے والے چالان میں شہباز شریف اور ان کے صاحب زادے حمزہ شہباز کو نہ صرف مرکزی ملزمان بلکہ 16 ارب روپے سے زیادہ کی منی لانڈرنگ کا اصل فائدہ اٹھانے والوں کے طور پر ملزمان قرار دیا گیا ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق 16 ارب روپے سے زائد کی منی لانڈرنگ بدعنوانی، غیرقانونی ذرائع اور تحائف سے حاصل شدہ رقوم پر مشتمل ہے۔
چالان کو بدعنوانی کی روک تھام کے ایکٹ 1947 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں فوجداری جرائم کے تحت خصوصی عدالت میں ٹرائل کے آغاز کے لیے جمع کرایا گیا تھا۔
خیال رہے کہ شہباز شریف نے اس مقدمے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں بھی ایک درخواست دائر کی تھی کہ یہی مقدمہ پہلے نیب نے بھی بنایا اور تحقیقات میں ان کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہوا۔ ان کی درخواست میں درج تھا کہ اب سیاسی انتقام کے طور پر ایف آئی اے کے ذریعے یہ مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
تاہم انہوں نے یہ درخواست عدالت سے اس وقت واپس لے لی جب عدالت نے اس مقدمے میں نیب کو فریق نہ بنانے کا حکم دیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے اس وقت کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے گذشتہ برس فروری اور مارچ میں نہ صرف شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شریف پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا اعلان کیا تھا بلکہ اپنی ہی جماعت کے رہنما جہانگیر ترین اور ان کے خاندان پر بھی مقدمات درج کروائے۔
بعد ازاں جب جہانگیر ترین عدالت میں پیش ہوئے تو ایف آئی اے نے ان کے خلاف تحقیقات روک دیں اور عدالت کو بتایا کہ ’بعض حقائق‘ سامنے آنے پر اب وہ تحقیقات کے لیے مطلوب نہیں ہیں۔
شہباز شریف اور جہانگیر ترین اور ان کے بچوں نے ان مقدمات میں گرفتاری سے بچنے کے لیے عبوری ضمانتیں بھی کروا رکھی تھی۔
شہباز شریف اور حمزہ کی ضمانت ابھی جاری ہے جبکہ جہانگیر ترین نے ایف آئی اے کے بیان کے بعد ضمانت کی درخواست واپس لے لی ہے۔
بعد ازاں ایف آئی اے نے شہباز شریف اور ان کے بیٹے کے خلاف مقدمے کا چالان عدالت میں پیش کیا تھا۔ ان کی ضمانت بھی منسوخ کروانے کی بارہا کوشش کی لیکن عدالت نے ان کی ضمانت منسوخ نہیں کی۔
عدالت نے بنیادی نقطہ یہ اٹھایا کہ اب جبکہ مقدمے کا چالان پیش ہو چکا ہے اور صرف ٹرائل ہونا باقی ہے تو ایف آئی اے ملزمان کو گرفتار کیوں کرنا چاہتی ہے؟
عدالت کے مطابق ملزمان کو صرف تحقیقات کرنے کے لیے گرفتار کیا جاتا ہے جبکہ اس کیس میں بقول ایف آئی اے تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں۔
ایف آئی اے نے اس مقدمے کا چالان دسمبر 2021 میں عدالت میں جمع کروایا۔