فطری حسن سے بھرپور خیبر پختونخوا کا سیاحتی مقام گلیات آبی وسائل سے مالا مال ہے مگر یہاں کی مقامی آبادی پانی کے شدید مسئلے سے دوچار ہے۔
گلیات کے پہاڑوں سے بہتے چشمے، آبشاریں اور ندیاں آب رواں کے ترنم کی وجہ سے ہمیشہ سے مسحور کن رہی ہیں مگر یہاں کے مکین آج کل پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پانی کی قلت میں مزید اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ برطانوی دور سے گلیات کے پانی کو جمع کرکے پنجاب کے معروف سیاحتی مقام مری کو فراہم کیا جانا ہے۔
گذشتہ چند سالوں سے گلیات میں پانی کے ذخائر پر تحقیق کرنے والے عبدالرحمٰن ابن عجائب عباسی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’برطانیہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ برائے ہندوستان نے مری کو پانی کی فراہمی کے لیے 1890 میں منظوری دی جس کے بعد حکومت برطانوی ہند کی طرف سے ڈونگا گلی میں پانی کو بڑی مقدار میں ذخیرہ کرنے کے لیے آہنی تالاب بنائے گئے، جن میں تقریباً 90 لاکھ گیلن پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔‘
’وہاں سے مری کو دو، چھ اور آٹھ انچ قطر کی پائپ لائنیں بچھا کر پانی کی فراہمی یقینی بنائی گئی جس سے سارا سال مری کو تو بلا تعطل پانی کی فراہمی یقینی ہوتی ہے مگر چراغ تلے اندھیرا کے مصداق یہاں کی مقامی آبادی پانی سے محروم رہتی ہے۔‘
عبدالرحمٰن عباسی کی تحقیق کے مطابق انگریز حکومت نے اپنے فوجیوں کی نقل و حرکت کے لیے ڈونگا گلی سے گھوڑا ڈھاکہ تک چار کلومیٹر ٹریک تیار کیا تھا، جس پر بعد ازاں پانی کی یہ پائپ لائن بچھائی گئی جس سے باڑیاں اور مری میں قائم برطانوی افواج کی چھاؤنیوں میں پانی فراہم کیا جاتا تھا۔
اس ٹریک سے گزرتی پائپ لائن کے بہاؤ کو متاثر ہونے سے بچانے کے لیے راستے میں آتی ایک پہاڑی کو کاٹ کر 250 فٹ لمبی ایک سرنگ تعمیر کی گئی جو موٹو ٹنل کے نام سے جانی جاتی ہے۔
تقریباً ڈیڑھ صدی پرانی موٹو ٹنل ایک تاریخی ورثہ ہے، جس پر ماضی کے آثار اب بھی نمایاں ہیں لیکن ایک عرصے تک یہ سرنگ کچرے تلے چھپی رہی جسے 2019 میں وزارت ماحولیات نے تزئین و آرائش کے بعد محکمہ جنگلی حیات کے حوالے کیا۔
محقق عبدالرحمٰن کے بقول ڈونگہ گلی کے تالابوں سے سارا سال بلا تعطل پانی کی ترسیل مری اور گلیات ہی میں قائم حکمرانوں کے ریسٹ ہاوسز میں تو ہوتی ہے مگر یہاں کے مکین پانی سے محروم رہ کر سالہا سال اذیت میں مبتلا رہتے ہیں۔
عبدالرحمٰن عباسی کی تحقیق کے مطابق گلیات اور سرکل بکوٹ کے مختلف علاقوں نتھیا گلی، ڈونگہ گلی، ایوبیہ، خانسپور اور بالخصوص بیروٹ اور بکوٹ میں پانی کی 10 لاکھ گیلن یومیہ ضرورت ہونے کے باوجود یہ مینہ کہیں اور برستا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے جب اس پر مکینوں کے تاثرات معلوم کیے تو مقامی افراد کا کہنا تھا کہ جیسے آج کل بہار کی آمد کے ساتھ گلیات کا سیزن بحال ہوا ہے تو ہر نئے آنے والے دن کے ساتھ یہاں کے باسیوں کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو رہا ہے۔
اس سے قبل یہاں کے باسی ہر سال اکتوبر کے مہینے میں برف باری شروع ہونے کے ساتھ ہی بنیادی ضروریاتِ زندگی نہ ہونے کی وجہ سے اسلام آباد یا راولپنڈی کا رخ کر لیتے ہیں جہاں وہ کرائے کے مکانوں میں سردیوں کے چند مہینے گزار کر اپریل میں دوبارہ اپنے دیہات کا رخ کرتے ہیں۔
مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ ان کے پانی کے ذخائر پر مری واٹر بورڈ اور گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ناجائز قبضے ہیں جو پانی جمع کرکے سرکاری ریسٹ ہاؤسز اور مری شہر کو فراہم کرتے ہیں جب کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن علاقوں سے یہ پانی جمع کیا جاتا ہے انہی علاقوں کے رہائشیوں کا اس پر پہلا حق بھی بنتا ہے مگر گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی ان علاقوں کے مکینوں کو ان کے اس بنیادی حق سے محروم کر رہی ہے۔
اس پر گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ترجمان احسن حمید قریشی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ گلیات کی خوبصورتی اور تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھا رہے ہیں مگر انگریز دور ہی سے گلیات کی پانی کی ترسیل مری کو ہو رہی ہے، جس کا پس منظر حکومت برطانوی ہند کی طرف سے 100 سال کے لیے مری کو گلیات سے پانی کی فراہمی تھا جو کہ کئی عشرے قبل مکمل ہو چکا ہے مگر مری واٹر بورڈ تاحال اسے اپنا استحقاق سمجھ کر گلیات کے ساتھ حق تلفی کر رہا ہے۔
احسن کے بقول: ’متعدد بار کوششوں کے باوجود مری واٹر بورڈ گلیات کے پانی پر سے اپنا قبضہ نہیں چھوڑ رہا، جس پر گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اس حق تلفی پر کونسل آف کامن انٹرسٹ میں خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے کیس کر رکھا ہے اور حکومت پنجاب سے پانی کی رائلٹی کی ڈیمانڈ کی گئی ہے۔‘