سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کی صاحبزادی اور وکیل ایمان مزاری نے والدہ کی گرفتاری کے بعد پاکستان فوج کے خلاف دیے گئے بیان پر درج ایف آئی آر سے متعلق اپنی وضاحت دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں الزامات کو مسترد کردیا ہے۔
جمع کروائے گئے جواب میں کیا لکھا ہے؟
ایمان مزاری نے اداروں کے خلاف نامناسب زبان کے استعمال کرنے کی دفعات کے تحت درج مقدمے میں اپنا تین صفحات پر مشتمل تحریری جواب اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرادیا ہے۔ ایمان مزاری نے موقف اختیار کیا ہے کہ ان کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر میں عائد کیے گئے الزامات بدنیتی پر مبنی ہیں اور یہ مقدمہ بے بنیاد اور قانونی کارروائی کا غلط استعمال ہے۔
جمع کرائے گئے جواب میں ایمان مزاری نے بتایا ہے کہ وہ تفتیشی افسر کے سمن کرنے پر 30 مئی کو شامل تفتیش ہوئیں جہاں انہیں دو ویڈیوز دکھائی گئیں جن میں سے ایک اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر اور ایک اندر کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ 21 مئی 2022 کو ان کی والدہ شیریں مزاری کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا۔ ’انہوں نے گرفتاری سے قبل بتایا تھا کہ آرمی چیف اور ان کے درمیان دو مرتبہ کے تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا، موضوع کیا تھا اس کا علم نہیں، والدہ نے بتایا تھا کہ آرمی چیف کے ساتھ تلخ جملوں کے بعد کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ سکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی والدہ کی گرفتاری کے روز انہوں نے جس شک کا اظہار کیا اسے کسی جرم میں معاونت کی کوشش نہیں کہا جا سکتا، پاکستان آرمی کے سپاہیوں کو سینیئر لیڈرشپ کے خلاف بغاوت پر اکسایا نہ ہی کوئی معاونت کی۔ یہ الزام مضحکہ خیز ہے کہ اپنی ماں کی گمشدگی کے وقت میرا ارادہ بغاوت کروانا ہے۔
انہوں نے جواب میں لکھا ہے کہ معلومات کی بنیاد پر شک کا اظہار کرنا ان کا حق تھا۔ ان کا ارادہ اس گرفتاری کے پیچھے شخص کی تحقیقات کروانے کا تھا۔
انہوں نے جمع کرائے گئے جواب میں بتایا کہ دوران تفتیش شدت پسندوں سے رابطے سے متعلق بھی ان سے پوچھا گیا جس کی انہوں نے سختی سے تردید کی۔ ایمان مزاری نے کہا ہے کہ وہ ایک پرامن غیر مسلح شہری ہیں اور انہوں نے کسی بھی شکایت کے ازالے کے لیے ہمیشہ قانونی راستہ اختیار کیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ’غیر ملکی رابطوں سے متعلق سوال پر فارن ایجنٹ‘ ہونے کی تردید کرتے ہوئے جنوری 2021 میں آخری مرتبہ بیرون ملک سفر کرنے کا بتایا ہے۔
سماعت میں کیا ہوا؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایمان زینب مزاری کی جانب سے اداروں کے خلاف نامناسب الفاظ استمعال کرنے کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر پولیس اور مدعی مقدمہ کو جواب کے لیے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ گذشتہ روز ایمان مزاری اپنی وکیل زینب جنجوعہ کے ہمراہ چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں پیش ہوئیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ایمان مزاری کی جانب سے داخل کروائے گئے جواب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے لکھا ہے کہ جس بیان کی بنیاد پر مقدمہ ہوا وہ غیر ارادی طور پر تھا۔ آپ نے تو واضح لکھا ہے کہ وہ سٹریس میں تھیں اور انہوں نے ایک خدشے کا اظہار کیا تھا، کیاآپ نے شامل تفتیش ہو کر پولیس کو یہ باتیں بتائی ہیں؟‘
یہ بھی پڑھیے: شیریں مزاری: جوڈیشل انکوائری اور رہا کرنے کا عدالتی حکم
اس کے جواب میں وکیل زینب جنجوعہ نے عدالت کو بتایا کہ شامل تفتیش ہو کر پولیس کے سوالوں کے جواب دیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا پٹیشنر کی ماں کو اٹھا لیا گیا تھا، وہ سٹریس میں تھیں۔ ’ہم نے پاکستان آرمی کے بارے میں کوئی بات ہی نہیں کی تو انتشار پھیلانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جس کے بعد چیف جسٹس نے قرار دیا کہ’اس بیان کے بعد تو ادارے کو اپنی شکایت بھی واپس لے لینی چاہیے تھی۔‘ درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت نو جون تک ملتوی کر دی گئی۔
ایف آئی آر میں کیا کہا گیا ہے؟
ایمان مزاری کے خلاف جج ایڈووکیٹ جنرل کی جانب سے درخواست پر دفعات 138 اور 505 کے تحت اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں مقدمہ درج کیا گیا جس کے متن کے مطابق ’ایمان مزاری نے 21 مئی 2022 کی شام پانچ سے چھ بجے پاکستان فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف سرعام من گھڑت اور بے بنیاد الزامات لگاتے ہوئے آرمی قیادت کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا۔ ان کے ریمارکس کا مقصد فوج کے رینکس اینڈ فائل میں اشتعال دلانا تھا جو فوج کے اندر نفرت پیدا کرنے کا باعث بن سکتا تھا جو ایک سنگین جرم ہے۔‘
ایف آئی آر کے مطابق یہ بیان دینا پاکستان فوج کے افسروں، جوانوں کو حکم عدولی پر اکسانے کے مترادف ہے اور فوج اور سربراہ کی کردار کشی سے عوام میں خوف پیدا کرنا ریاست کے خلاف جرم ہے۔ اس لیے متعلقہ قوانین کے تحت ایمان مزاری کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔‘