صدارتی آرڈیننس کی مدت ختم ہونے کے بعد جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بطور سربراہ قومی ادارہ برائے احتساب (نیب) کا گذشتہ روز چارج چھوڑ دیا ہے۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال اپنی چار سالہ مدت اکتوبر 2021 میں پوری کر چکے تھے لیکن پی ٹی آئی کی حکومت نے ایک متنازع آرڈیننس کے ذریعے نئے چیئرمین کی تعیناتی تک انہیں کام جاری رکھنے کے لیے کہا تھا۔
جسٹس جاوید اقبال کو 2017 میں اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے درمیان مذاکرات اور دیگر پارٹیوں کی مشاورت کے بعد چیئرمین نیب مقرر کیا گیا تھا۔ بعد میں انہوں نے شاہد خاقان عباسی پر ہی مقدمہ بنا کر انہیں گرفتار کروایا۔
سابق چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال تحریک انصاف حکومت کے دور میں اپوزیشن کے خلاف متعدد مقدمات بنانے کی وجہ سے خاصی تنقید کی زد میں رہے۔
دوسری جانب انہیں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف مالم جبہ اور ہیلی کاپٹر جیسے کیس بند کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
ان کے دور میں نجی کمپنیوں، بڑی سیاسی اور کاروباری سمیت دیگر اہم شخصیات پر مقدمات بنے۔ سابق صدر آصف علی زرداری، موجودہ وزیراعظم شہباز شریف، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت کئی اہم شخصیات اور اراکین پارلیمنٹ جیلوں میں بھی گئے۔
مختلف متنازع مقدمات، نیب ملزمان کی موت/خودکشی کے واقعات اور ویڈیو سکینڈلز سامنے آنے کے بعد جسٹس جاوید اقبال متنازع ہوئے اور اس وقت کی حکومت میں شامل جماعتوں نے انہیں عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا۔
بریگیڈیئر (ر) اسد منیر نے نیب پر سوالات اٹھاتے ہوئے سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا اور مبینہ طور پر نیب کے دباؤ کے باعث اپنے گھر میں خودکشی کی۔ ستم ظریفی یہ کہ انتقال کے ایک سال بعد انہیں نیب مقدمات سے بری کر دیا گیا۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال ایبٹ آباد کمیشن کے بھی سربراہ رہ چکے ہیں جب کہ لاپتہ افراد کمیشن کے اس وقت بھی سربراہ ہیں۔
ایک طرف جہاں انہیں بطور چیئرمین نیب عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا وہیں سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے بھی بطور لاپتہ افراد کمیشن سربراہ کے ان کے کردار پر کئی سوالات اٹھاتے ہوئے لاپتہ افراد کمیشن کو ختم کرنے کا مشورہ دیا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں بریفنگ کے دوران انکشاف کیا گیا کہ نیب کے قیام سے اب تک (تین نومبر 2021 تک) نیب نے 821 ارب روپے ریکور کیے جس میں سے ساڑھے چھ ارب روپے وزارت خزانہ کو جمع کروائے گئے۔
اس سے متعلق وزارت خزانہ حکام نے کمیٹی کے سامنے ’باقی رقم کہاں ہے، اس کا علم نہیں‘ کا بیان دیا۔
تین نومبر کو ہونے والے اس کمیٹی کے اجلاس میں جمع کی گئی رقم اور وزارت خزانہ کی جانب سے تقریباً 815 ارب روپے کی ریکوری سے لاعلم ہونے پر کمیٹی اراکین نے شدید تنقید کی اور کئی سوالات اٹھائے جس کے بعد نیب کو وضاحت جاری کرنا پڑی اور رپورٹس کے مطابق جسٹس (ر) جاوید اقبال نے یہ کہا کہ ’نیب کا مکمل آڈٹ ہو چکا ہے، پلاٹوں پر قبضہ کرنے والے ملک بھر میں موجود ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا: ’نیب ریکوری کا حساب جس کو بھی چاہیے وہ معلومات لے سکتا ہے، رقم وصولی رقم کی صورت میں نہیں ہوتی، اب بھی اربوں روپے کی زمینوں سے قبضے چھڑوائیں گے۔‘
بعض رپورٹس کے مطابق نیب نے یہ وضاحت دی کہ وصول کی گئی رقم متعلقہ متاثرین کو واپس دی گئی۔
نیب افسران کیا کہتے ہیں؟
ڈائریکٹر جنرل نیب ہیڈکوارٹرز حسنین احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’سابق چیرمین نیب جاوید اقبال نرم مزاج، ذہین، شائستہ گفتار اور خوش مزاح تھے۔ ہمیشہ کرسی سے اٹھ کر ملتے تھے، دفتر میں چائے پانی یا کچھ اور سرکاری خرچے پر نہیں کھلایا نہ ہی کبھی سرکاری وسائل کا غلط استعمال کیا۔‘
ان کا کہنا تھا: ’جاوید اقبال کی کارکردگی بھی بہترین رہی اور کام میں کبھی نرمی نہیں رکھتے تھے۔‘
دوسری جانب نیب کے ایک سینئیر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’سیاسی حوالے سے نیب لاہور کے اندر کئی خرابیاں ہوئیں۔ سابق چیرمین نے نیب لاہور کی جانب سے کی گئی زیادتیوں کا بوجھ اٹھایا۔ انہوں نے اپنے حصے کے ہی نہیں دوسرے کے حصہ کے کانٹے بھی چنے۔‘
جسٹس (ر) جاوید اقبال کی بطور جج شخصیت کیسی رہی؟
سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس (ر) ثاقب نثار نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے جسٹس جاوید اقبال کے بطور کولیگ رائے دینے سے گریز کیا۔
ان کا کہنا تھا: ’اس معاملے پر بات کرنا میرے لیے مناسب نہیں۔‘
کیا ’وہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے دائیں طرف کھڑے رہے؟‘
ایبٹ آباد کمیشن سمیت لاپتہ افراد کمیشن اور نیب کو مسلسل اور قریب سے کور کرنے والے سینیئر صحافی اعزاز سید کہتے ہیں کہ جسٹس جاوید اقبال کی شخصیت پر کئی سوالات اٹھتے رہے ہیں اور ’وہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے دائیں طرف کھڑے رہے۔‘
اعزاز سید نے بتایا کہ ماضی میں ’جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو عہدے سے ہٹایا گیا تو جاوید اقبال کو چیف جسٹس لگایا گیا اور انہیں اس بات کا پہلے سے ہی علم تھا۔ اس کے بعد ایک فیور کے طور پر مختلف نوکریاں ملیں، انہیں کمیشن کا سربراہ بنایا گیا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ایبٹ آباد کمیشن اور لاپتہ دونوں کمیشن کی رپورٹس کبھی سامنے نہیں آئیں۔ جاوید اقبال لاپتہ افراد کمیشن کے اس وقت بھی سربراہ ہیں لیکن انہوں نے اپنا کام سرانجام نہیں دیا۔ حکومت ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ پبلک کرنا چاہتی تھی لیکن جاوید اقبال کی رپورٹ سے اداروں کا مذاق بنتا۔‘
اعزاز سید کا کہنا تھا: ’چیئرمین نیب کا انتخاب کرنا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی ذمہ داری تھی۔ انہوں نے جسٹس (ر) جاوید اقبال کا انتخاب چیرمین نیب کے لیے کیوں کیا؟ اور پھر سب نے دیکھا کہ سال 2018 کے انتخابات سے قبل نیب کو سیاسی انجینیئرنگ کے طور پر استعمال کیا گیا اور ان کی ذات پر کئی الزامات لگتے رہے۔‘
ملک میں احتساب کے عمل پر عمومی عدم اطمینان کے علاوہ لاپتہ افراد کی بازیابی آج بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ گمشدہ افراد کے ورثا آج بھی مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں اور کئی خاندان اپنے پیاروں کو دیکھنے کے منتظر ہیں۔
لاپتہ افراد کے ورثا کیا کہتے ہیں؟
چیئرپرسن ڈیفنس آف ہیومن رائٹس گروپ آمنہ جنجوعہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’لاپتہ افراد کمیشن کا مینڈیٹ لاپتہ افراد کے مسئلے کو ختم کروانا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ لاپتہ افراد کے مینڈیٹ پر انہوں (جاوید اقبال) نے عمل درآمد نہیں کیا۔‘
انہوں نے بتایا: ’450 ایسے کیسز ہیں جن کی پیشی کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری ہو چکے ہیں۔ آرڈر جاری ہونے کے بعد سماعت کا سلسلہ بھی بند کر دیا جاتا ہے اور لاپتہ فرد بھی کبھی واپس نہیں آتا۔ لوگ ہائی کورٹ جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے آپ کمیشن جائیں، ہم متعدد بار کمیشن جا کر خوار ہو چکے ہیں، متاثرہ خاندانوں کے ساتھ نامناسب رویہ رکھا گیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’کئی نوجوان خواتین، جن کے شوہر لاپتہ ہیں، کی شکایات بھی سامنے آئیں۔‘
خاتون کا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے آمنہ جنجوعہ نے ان کی چیئرمین لاپتہ افراد کمیشن سے ملاقات میں مبینہ نازیبہ گفتگو کا واقعہ بیان کیا۔ ’وہ جج کا مرتبہ سمجھ کر ان سی ملنے گئیں، معلوم نہیں ایسے کئی واقعات ہوتے ہوں گے۔ کمیشن کام کرتا تو آج کیسز ختم ہو چکے ہوتے۔‘
لاپتہ افراد کمیشن کی جانب سے وقتاً فوقتاً اٹھنے والے سوالات اور ہونے والی تنقید کے بعد وضاحت سامنے آتی رہی ہے۔
بعض موقعوں پر یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’لاپتہ افراد کمیشن اپنا کام کر رہا ہے، کمیشن کو درخواستیں موصول ہوتی ہیں اور طریقہ کار کے مطابق ان پر عمل کیا جاتا ہے، لاپتہ افراد کے معاملے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ملاقاتیں ہوتی ہیں اور کئی لاپتہ افراد واپس اپنے پیاروں سے ملوائے بھی جا چکے ہیں۔
جسٹس جاوید اقبال لاپتہ افراد کے اس کمیشن کے 11 سال سے چیئرمین ہیں۔ ان سے ان الزامات کی بابت ردعمل جاننے کی کوشش کی گئی لیکن جواب نہیں ملا۔
میڈیا ہینڈلنگ
جسٹس جاوید اقبال میڈیا سے اکثر دور رہنے کی پالیسی پر گامزن رہے ہیں۔ انہوں نے آن ریکارڈ انٹرویو نہیں دیئے ہیں لیکن اپنے موقف کی وضاحت مختلف تقاریب میں اپنی تقاریر کے ذریعے کرتے رہے ہیں۔ وہ آف دی ریکارڈ ملاقاتیں بھی اکثر صحافیوں سے کرتے رہتے ہیں لیکن انہیں یہ گفتگو رپورٹ کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
ان کا اس بابت ایک تنازعہ 2019 میں سامنے آیا تھا جب معروف اینکر جاوید چوہدری نے چئیرمین سے باتیں منسوب کی تھیں جن کی بعد میں انہوں نے تردید کی۔ نیب نے اس وقت کہا کہ کہ صحافی نے حقائق بیان نہیں کیے اور کالم میں خود ہی کئی باتوں کی وضاحت بھی کر رکھی ہے۔ نیب کا کہنا ہے کہ کالم میں کچھ شخصیات اور کیسوں سے متعلق جو بیان کیا گیا وہ درست نہیں۔
چئیرمین نیب نے اس ملاقات کے دوران مبینہ طور پر بتایا تھا کہ ان پر عہدہ چھوڑنے کے لیے بہت دباؤ ڈالا جا رہا تھا اور صدر بننے کی پیشکش بھی کی گئی تھی۔ دوسری جانب جاوید چوہدری نے بعد میں انکشاف کیا کہ چیئرمین نیب نے خود بلا کر کر انٹرویو دیا تھا اور کچھ باتیں مخفی رکھنے کا بھی کہا تھا۔
جسٹس جاوید اقبال کون ہیں؟
جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال بنیادی طور پر عدلیہ سے ہیں۔ وہ سپریم کورٹ کے سابق جج رہے اور اپنے کیرئیر کے بیشتر دورانیے میں تنازعات کا شکار رہے۔
وہ سپریم کورٹ کے ان ججوں میں شامل تھے جنہوں نے سابق فوجی آمر صدر پرویز مشرف کے پہلے پی سی او عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اٹھایا تھا۔
سابق فوجی آمر کے دور میں مارچ 2007 میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہونے کے بعد انہیں پاکستان کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیا گیا تھا۔
جسٹس جاوید اقبال سپریم کورٹ کے اس بینچ کی سربراہی بھی کر رہے تھے جس نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو وردی میں صدارتی انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق درخواستوں کے بارے میں حکم دیا تاہم اس کے ساتھ یہ شرط بھی لگا دی کہ جب تک پرویز مشرف اپنی وردی نہیں اتاریں گے اس وقت تک انتخابی کمیشن انتخابات کا اعلان نہیں کرے گا۔