سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے آج ہونے والے اجلاس میں بحث اس وقت لڑائی میں تبدیل ہوگئی، جب تحریک انصاف کے رہنما شہباز گِل کی اہلیہ عزہ اسد رسول کی نادہندگی کے معاملے پر گفتگو کی گئی۔
کامسیٹس یونیورسٹی کے مطابق شہباز گِل کی اہلیہ عزہ اسد رسول سرکاری خرچ پر 2011 میں پی ایچ ڈی کرنے امریکہ گئیں لیکن 11 سال کے بعد بھی واپس نہ آئیں، جس کے بعد یونیورسٹی نے انہیں شوکاز نوٹس بھیج رکھا ہے۔
یہ معاملہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے ایجنڈے میں پانچویں نمبر پر تھا، جس کی صدارت چیئرمین سینیٹر شفیق ترین کی عدم موجودگی میں بدھ کو سینیٹر افنان اللہ نے قائم مقام چیئرمین کی حیثیت سے کی۔
کامسیٹس یونیورسٹی کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ’2010 میں 74 افراد کو سکالرشپ دی گئی تھی اور پورے پروگرام میں ان 18 سالوں میں 55 لوگ ہیں جو کامسیٹس کے نادہندہ ہیں۔‘
’سیاسی نشانہ‘
پی ٹی آئی سینیٹرز نے اجلاس میں اس معاملے کو زیر بحث لانا ’سیاسی نشانے‘ سے تعبیر کیا جبکہ قائم مقام چیئرمین سینیٹر افنان اللہ کمیٹی رولز کو خاطر میں نہ لائے، جن کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے۔
شدید لڑائی اور گرما گرمی ہونے پر پارلیمنٹ کی سکیورٹی کو کمیٹی روم میں آنا پڑا، جس کے بعد اجلاس میں وقفہ کیا گیا اور وقفے کے بعد اراکین نے طے کیا کہ یہ پروسیڈنگ غیر قانونی ہے۔
سینیٹر ہمایوں مہمند نے رولز پڑھ کر سنائے اور کہا کہ چیئرمین صاحب غیر حاضر ہیں اور ان کی غیر حاضری میں ازخود کوئی بھی قائم مقام چیئرمین نہیں بن جاتا بلکہ کمیٹی اراکین قائم مقام چیئرمین منتخب کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ ہم نے سینیٹر افنان اللہ کو چیئرمین منتخب نہیں کیا اس لیے رولز کے مطابق یہ کارروائی بھی کالعدم قرار دی جاتی ہے۔
اس معاملے پر سینیٹر شبلی فراز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’چاہے کوئی بھی ہو بلا تفریق کارروائی ہونی چاہیے۔ ہر بات کا طریقہ کار ہوتا ہے لیکن سیاسی بنیادوں پر کسی ایک کیس کو ہائی لائٹ کرنا درست نہیں۔‘
شبلی فراز کے مطابق: ’ایچ ای سی کی سکالرشپ سے کتنے لوگ باہر پڑھنے جاتے ہیں اور واپس نہیں آتے، ان سب کی فہرست بننی چاہیے اور ایچ ای سی کو بھی نوٹس ہونا چاہیے کہ وہ کمیٹی میں آ کر بتائیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بلاتفریق سب کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ ہم کسی کی کرپشن کا دفاع نہیں کر رہے، لیکن سیاسی بنیادوں پر کسی ایک فرد کا نام ایجنڈے میں شامل کرنا بدنیتی ہے۔‘
کمیٹی میں بحث شروع کیسے ہوئی؟
کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر افنان اللہ نے اجلاس کے آغاز میں کہا کہ عزہ رسول کا معاملہ آخر میں ڈسکس کریں گے، تاہم بعد میں سینیٹرز کی جانب سے اصرار پر ترتیب سے ایجنڈا جاری رکھا گیا۔
سینیٹر محمد ہمایوں نے اعتراض اٹھایا کہ جس خاتون کا معاملہ ہے انہیں بھی اپنی صفائی دینے کے لیے کمیٹی میں بلانا چاہیے۔ یہ انفرادی معاملہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس معاملے کو ایجنڈے میں اس لیے رکھا گیا کیونکہ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے۔‘
مزید پڑھیے: شہباز گل کی کایبنہ میں شمولیت: کابینہ کی ففٹی اپ
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ’یہ انفرادی معاملہ نہیں ہے۔ جب قوم کے پیسے استعمال ہوئے ہیں تو حساب تو ہونا چاہیے۔‘
سینیٹر شبلی فراز نے بھی اعتراض اٹھایا کہ شہباز گِل کی اہلیہ کا معاملہ کمیٹی میں نہ سنا جائے۔
جس پر کمیٹی چیئرمین نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’خاتون دو لاکھ ڈالر کی نادہندہ ہیں۔ آپ دو لاکھ ڈالر دے دیں تو ہم معاملہ ختم کر دیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم معاملہ آج سن لیتے ہیں اور عزہ رسول کے موقف کے لیے آئندہ اجلاس میں انہیں آن لائن شرکت کے لیے دعوت دے دیں گے۔‘
کمیٹی چیئرمین نے مزید کہا کہ ’اگر یہ معاملہ کمیٹی میں ڈسکس نہ کرنے دیا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ تحریک انصاف کے سینیٹرز کرپشن کی حمایت کر رہے ہیں۔‘
تاہم اجلاس کے دوران شہباز گل کی اہلیہ عزہ رسول کی سکالر شپ اور نادہندہ ہونے کے معاملے پر پی ٹی آئی کے سینیٹرز اور چیئرمین کمیٹی کے مابین گرما گرمی ہو گئی۔
یہ بھی پڑھیے: شہباز گل کے بیان پر ردعمل: ’ایسا تو مشرف دور میں بھی نہیں ہوا‘
تحریک انصاف کے سینیٹرز نے کہا کہ ’تمام نادہندگان کو کمیٹی میں بلایا جائے۔ صرف شہباز گِل کی اہلیہ کے معاملے پر بات کرنے کا مطلب ہے کہ سیاسی فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔‘
کمیٹی کے قائم مقام چیئرمین سینیٹر افنان للہ نے کہا کہ ’تحریک انصاف کے سینیٹرز اپنے پیٹی بند بھائی کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کرپشن کا دفاع کر رہے ہیں۔ یہ قوم کا پیسہ ہے۔ دو لاکھ ڈالر کا حساب ہو گا۔‘
واضح رہے کہ سینیٹر افنان اللہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر ہیں اور مرحوم سینیٹر مشاہداللہ کے صاحبزادے ہیں۔
تحریک انصاف کے سینیٹرز نے قائم مقام چیئرمین سے کہا کہ ’آپ کو نواز شریف بچانے نہیں آئیں گے،‘ جس پر جواباً سینیٹر افنان نے کہا کہ ’آپ کو بھی عمران خان بچانے نہیں آئیں گے۔‘
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سینیٹر افنان اللہ اور تحریک انصاف کے سینیٹرز کے درمیان تلخی بڑھنے پر بیچ بچاؤ کروانے کی کوشش کی۔
عزہ رسول کی سکالر شپ کا معاملہ کیا تھا؟
کامسیٹس یونیورسٹی کی دستاویزات کے مطابق عزہ اسد رسول نے مارچ 2011 میں پی ایچ ڈی کے لیے سرکاری فنڈز سے سکالرشپ لی اور انہیں 99 ہزار ڈالرز کی رقم فراہم کی۔
مسز عزہ رسول نےکامسیٹس یونیورسٹی سے معاہدے کے تحت 2016 میں پی ایچ ڈی مکمل کرنا تھی اور معاہدے کے تحت ڈگری کے بعد انہوں نے واپس آ کر یونیورسٹی میں پڑھانا تھا، تاہم ایسا نہ ہوا۔
معاہدے کی رُو سے اب عزہ رسول کو نہ صرف سرکاری فنڈز سے جاری رقم واپس کرنی ہے بلکہ اس سرکاری رقم پر 25 فیصد جرمانہ بھی ادا کرنا ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر انہوں نے تقریباً ایک کروڑ 86 لاکھ روپے یونیورسٹی کو ادا کرنے ہیں۔
دستاویزات کے مطابق شہباز گِل کی اہلیہ عزہ رسول نے پی ایچ ڈی کی سکالر شپ لینے کے بعد نہ تو یونیورسٹی کو کوئی پروگریس رپورٹ جمع کروائی اور نہ ہی 11 سالوں میں ڈگری مکمل کی۔