سن 1980 میں امریکی ریاست ٹیکسس میں والدین کے قتل کے وقت لاپتہ ہو جانے والی شیرخوار بچی کا 40 سال بعد سراغ مل گیا۔
’بے بی ہولی‘ کے نام سے مشہور بچی اپنے والدین ہیرالڈ ڈین کلوز جونیئر اور ٹینا گیل لن کلوز کے قتل کے بعد سے لاپتہ تھیں، جو ہیوسٹن کے قریب جنگل میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔
حکام کے مطابق ہولی، جن کی عمر اب 42 سال ہے، کی شناخت ڈی این اے ٹیکنالوجی کے ذریعے کی گئی ہے اور حال ہی میں انہیں ان کے خاندان سے ملوایا گیا ہے۔
ہولی کو ایک جوڑے نے گود لیا تھا جن کی اصل شناخت کے بارے میں حکام نے انہیں گذشتہ ہفتے ہی ان کے دفتر میں آگاہ کیا تھا۔ چند گھنٹوں بعد وہ اپنی دادی، خالہ اور چچا کے ساتھ زوم کال پر تھیں۔
ہولی میری کلوز اور ان کے والدین، (ٹینا جن کی عمر 17 سال اور والد ہیرالڈ جو 21 سال کے تھے) فلوریڈا سے منتقل ہونے کے بعد 1980 میں ٹیکسس میں لاپتہ ہو گئے تھے۔
مزید پڑھیے: پولیس نے قوت گویائی سے محروم لاپتہ بچے کو والدین سے کیسے ملوایا؟
تفتیش کاروں کو 1981 میں قتل ہونے والے اس جوڑے کی باقیات ملی تھیں لیکن ان کی شناخت 2021 تک ایک معمہ بنی رہی۔ بالآخر آئیڈنٹیفائنڈر انٹرنیشنل نامی ادارے نے ان کی قبر کشائی کی اور جینیاتی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ان کی شناخت کی۔
ڈین ایک کارپینٹر تھے جنہیں تشدد کرکے قتل کیا گیا جبکہ ٹینا کو گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا تھا۔
ہولی کی حقیقی دادی ڈونا کاساسنتا کا کہنا ہے کہ ہولی انہیں ان کے مقتول بیٹے کی سالگرہ کے دن ملی ہیں اور یہ خدا کی طرف سے ان کی سالگرہ کا تحفہ ہے۔
کاساسنتا نے کہا: ’میں نے 40 سال سے زیادہ عرصے تک اس دن کے لیے دعا کی ہے اور خدا نے اس کا جواب دے دیا اور ہمیں ہولی سے ملا دیا۔‘
ان کی خالہ شیری لنگرین نے ہولی کے ملنے پر خوشی کا اظہار کیا۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا: ’آخرکار ہولی کے ملنے کے بعد میں نے کل رات انہیں اور اپنی بہن ٹینا کو خواب میں دیکھا۔‘
انہوں نے کہا: ’میں نے خواب میں ٹینا کو ہنستے ہوئے فرش پر لوٹ پوٹ ہوتے دیکھا اور وہ ہولی کے ساتھ کھیل رہی تھیں بالکل ویسے جیسے میں نے انہیں کئی بار دیکھا تھا، جب وہ ٹیکسس جانے سے پہلے میرے ساتھ رہتے تھے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’مجھے یقین ہے کہ آخر کار ٹینا کی روح کو یہ جان کر کہ ہولی اپنے خاندان کے ساتھ دوبارہ مل رہی ہے، سکون مل گیا ہو گا۔ میں خود بھی یہ جان کر بہت سکون محسوس کر رہی ہوں کہ ہولی زندہ اور صحت مند ہیں اور ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کی گئی تھی لیکن یہ سب توڑ دینے والا تھا۔ یہ بچی ان کی زندگی تھی۔‘
حکام نے اس بارے میں تفصیلات جاری نہیں کیں کہ انہوں نے ہولی کو کیسے ڈھونڈ نکالا اور یہ کہ وہ قتل سے کیسے بچ گئی تھیں یا انہیں کیسے گود لیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: امریکہ: 30 سال بعد ایک سیریل کلر کا سراغ کیسے لگایا گیا؟
ہولی کی شناخت کا اعلان جمعرات کو ٹیکسس کے اٹارنی جنرل کے دفتر نے کیا۔
اٹارنی جنرل کین پیکسٹن نے ایک بیان میں کہا: ’مجھے اپنے دفتر میں قائم نئے کولڈ کیس اینڈ مسنگ پرسنز یونٹ کے اس غیر معمولی کام پر بہت فخر ہے۔ میرے دفتر نے ہولی کو ڈھونڈنے کے لیے پوری مستعدی سے کام کیا۔ ہم انہیں تلاش کرنے اور ان کے حقیقی خاندان کے ساتھ دوبارہ ملانے کی اپنی کوششوں میں کامیاب رہے ہیں۔‘
اس کیس میں مدد کرنے والے دو جینیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ یقین نہیں کر پائے کہ ہولی کی اپنی والدہ سے کتنی مماثلت ہے۔
گذشتہ سال اس کیس پر کام کرنے والی آئیڈینٹی فائنڈرز کی کنٹریکٹر مسٹی گیلس نے مقامی اخبار ’ہیوسٹن کرونیکل‘ کو بتایا: ’میں اس سارے عمل میں اپنے آنسو روک نہیں پائی۔‘
اپنی جینیاتی کمپنی بنانے سے پہلے گیلس کے ساتھ کام کرنے والی ایلیسن پیکاک نے کہا: ’یہ انتہائی غیر حقیقی تھا۔‘
ایلیسن پیکاک نے کہا: ’مجھے ان سے بات کرنے کے 10 منٹ بعد پتہ چلا۔‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ تفتیش کار خاتون کی ملازمت کی جگہ پر موجود تھے، جہاں سے انہوں نے ’مجھے ان کی تصویر بھیجی اور کہا: دیکھو ہم نے کسے ڈھونڈ نکالا۔‘
انہوں نے بتایا کہ طویل عرصے سے لاپتہ بے بی ہولی نے ’اس طرح ردعمل ظاہر کیا کہ تفتیش کاروں سے ملاقات کے چھ گھنٹے بعد، ہم اٹارنی جنرل کے دفتر کی طرف سے ایک ویڈیو کانفرنس میں شریک تھے، جس میں ان کے خاندان کے تقریباً 25 افراد، تفتیش کار اور دو ماہر الانساب بھی موجود تھے اور وہ یہ سب بہت کھلے دل سے کر رہی تھیں۔‘
آسٹن میں واقع ان کی جینیاتی تحقیق کی کمپنی کا پچھلے سال کیلی فورنیا میں قائم آئیڈینٹی فائنڈرز نامی کمپنی سے معاہدہ ہوا تھا اور وہاں ایک اور ماہر مسٹی گیلس، اس دہائیوں پرانے کیس میں دلچسپی لینے لگیں۔
ایلیسن پیکاک نے دی انڈیپنڈنٹ کو بتایا: ’ہم بعض اوقات ماہرین نسب کو کہتے کہ وہ جائیں اور انٹرنیٹ پر ایک ایسا کیس ڈھونڈیں جو انہیں پسند ہو، جیسے کہ جان ڈو یا کوئی ایسا کیس جو حل نہ ہوا ہو۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’زیادہ تر وقت، ہم ایسے کیس لیتے ہیں جو خود ہمارے پاس چل کر آتے ہیں، لیکن ہمیں روایتی کیس ملتے ہیں۔‘
بقول پیکاک: ’کسی نے کہا: چلو اس جوڑے کا کیس دیکھتے ہیں،‘ چنانچہ ہم نے (ٹیکساس کے حکام) سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا ان کے پاس اس جوڑے کے ڈی این اے ہیں اور انہوں نے مثبت جواب دیا اور پھر ہم خوش قسمت تھے کہ ہمیں مدد مل گئی۔‘
نیشنل سینٹر فار مسنگ اینڈ ایکسپلائٹڈ چلڈرن (این سی ایم ای سی) نے ہولی کی شناخت کے معمے کو حل کرنے میں مدد کرنے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا شکریہ ادا کیا۔
این سی ایم ای سی میں مسنگ چلڈرن ڈویژن کے نائب صدر جان بِشوف نے کہا: ’ہم جانتے ہیں کہ نیشنل سینٹر فار مسنگ اینڈ ایکسپلائٹڈ چلڈرن میں ٹیکنالوجی میں ترقی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سخت محنت اور لگن کے ساتھ ہمیں چار دہائیوں کے بعد بھی کامیابی مل سکتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہم پرجوش ہیں کہ ہولی کو اب اپنے حقیقی خاندان سے جڑنے کا موقع ملے گا جو اتنے عرصے سے انہیں تلاش کر رہا تھا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ پیش رفت دوسرے خاندانوں کے لیے بھی حوصلہ افزائی کا باعث ہے، جن کے پیارے اب تک لاپتہ ہیں اور یہ ہم سب کو یاد دلاتا ہے کہ کبھی ہمت نہ ہاریں۔‘
’این سی ایم ای سی ٹیکسس کے اٹارنی جنرل آفس کے کولڈ کیس اینڈ مسنگ پرسنز یونٹ، لیوس ول پولیس ڈیپارٹمنٹ اور تمام معاون ایجنسیوں کی مشترکہ کوششوں کو سراہتا ہے، جنہوں نے آج کی اس پیش رفت کو ممکن بنانے کے لیے مل کر کام کیا۔‘
© The Independent