معروف پاکستانی گلوکار علی حیدر کا کہنا ہے کہ ان کی ’پرانی جینز اور گٹار‘ اپنی جگہ پر موجود ہیں لیکن اب زیادہ کمرشل کام نہیں کرتے۔
اپنی البم ’چاہت‘ سے معروف ہونے والے علی حیدر نے ’پرانی جینز‘ گا کر موسیقی کی تاریخ میں اپنا نام امر کر لیا تھا۔
تاہم وہ طویل عرصے سے منظر عام پر نہیں تھے۔ ایک تقریب میں ملاقات ہوئی تو ہم نے انٹرویو کی درخواست کی جو انہوں نے منظور کرلی۔
اپنی ملاقات میں ان سے پہلا سوال یہی پوچھا کہ وہ ان دنوں کہاں ہوتے ہیں اور موسیقی کی دنیا سے غائب کیوں ہو گئے۔
علی حیدر نے بتایا کہ وہ ’ان دنوں امریکہ میں ہوتے ہیں اور اپنے بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں مشغول ہیں اور ان کا زیادہ وقت انہیں کاموں میں گزرتا ہے، البتہ انکی پرانی جینز اور گٹار دونوں اپنی جگہ پر ہی موجود ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ’گانا چھوڑا نہیں ہے۔ بس وہ زیادہ کمرشل کام نہیں کر رہے ہیں۔ ان کا آخری گانا کوک اسٹوڈیو تھا۔ جس میں انہوں نے ’جیا کرے دھک دھک‘ گایا تھا جو کافی مقبول ہوا تھا۔ یہ گانا ان کی البم ’سندیسہ‘ سے تھا جسے ری مکس کیا گیا تھا۔‘
علی حیدر کا کہنا تھا کہ ’ہر دور میں کچھ نا کچھ اچھا ہوتا ہی رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’نازیہ حسن اور زوہیب حسن، پھر وائٹل سائنز اور جنون کا دور تھا، جس کے بعد علی ظفر اور عاطف اسلم کا دور تھا اور اب حال ہی میں کوک اسٹوڈیو میں نئے نئے لوگ کام کررہے ہیں اور دنیا انہیں بہت پسند کررہی ہے۔‘
دیکھا جائے تو پاکستانی موسیقی نے ہمیشہ جدت کے ساتھ آگے کی جانب سفر کیا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اب وہ پرانی جینز جیسے میلوڈی کیوں سننے کو نہیں ملتی تو ان کا کہنا تھا کہ ’وہ نوے کی دہائی کی آواز تھی اور اس میں ان کے علاوہ بھی بہت سے فنکار شامل تھے۔ وہ ایک دور تھا جبکہ اب میوزک کا انداز بدل گیا ہے اور سننے والوں کا مزاج بھی کچھ بدل گیا ہے۔‘
علی حیدر نے کہا کہ ’آج کے زمانے لوگ اپنے گھر کی الماریوں میں ان کے پوسٹرز لگایا کرتے تھے اور وہ بھی مختلف قسم کے پوسٹرز جاری کیا کرتے تھے۔ لیکن اب گانے اس لحاظ سے کم وقت تک رہتے ہیں، اس لیے اب اس کا رجحان کم ہوگیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میوزک ویڈیوز کا معاملہ یہ ہے کہ پہلے ہم جو گانے بناتے تھے تو ہم چاہتے تھے کہ اس کی زندگی دائمی ہو۔ اس لیے زیادہ محنت کی جاتی تھی۔ اب زیادہ تر گانے پروگرامز کے ذریعے مقبول ہورہے ہیں اس لیے پرفارمنس والی ویڈیوز زیادہ آتی ہیں۔‘
2013 کے بعد سے علی حیدر کی جانب سے کوئی بڑا گانا نہیں سننے کو ملا۔ اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ ’2016 میں وہ امریکہ منتقل ہوگئے تھے اس لیے انہوں نے کافی کم کام کیا لیکن اس دوران میں ’ابھی ابھی‘ کے نام سے ایک گانا ریلیز کیا تھا۔‘
2013 میں ’بچپن کی بادامی یادیں‘ علی حیدر کے مطابق ان کا امریکہ جانے سے پہلے آخری بڑا گانا تھا جس کی میوزک ویڈیو بنی تھی۔ اسے پسند بھی کافی کیا گیا تھا۔ وہ پرانی جینز کی کہانی ہی کی طرح کا ایک گانا تھا۔
علی حیدر نے بتایا کہ ’انہوں نے حال ہی میں اپنا ایک پرانا گانا ’تم ہی تو ہو‘ ری مکس کیا ہے کیونکہ وہ ان دنوں پاکستان میں ہیں اس لیے اس گانے کی ویڈیو بھی بنائی ہے اور انہیں امید ہے کہ لوگوں کو یہ پسند آئے گا۔‘
تم ہی تو ہو علی حیدر کا ایک ڈراما بھی تھا۔ جس میں انہوں نے اداکاری کی تھی۔ اس پر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ’اداکاری چھوڑی نہیں لیکن پہلے بھی اداکاری کم ہی کی تھی اور اب وقت کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ سوچتے ہیں کوئی کام کرنے سے پہلے۔‘
انہوں نے انکشاف کیا کہ انہیں حال ہی میں ’ایک چینل کی جانب سے ’ بگ باس‘ کے مقامی طرز پر بنے پروگرام میں شرکت کی پیشکش بھی ہوئی ہے۔‘
علی حیدر نے ایک فلم ’چلو عشق لڑائیں‘ میں بھی کام کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ تجربہ ’بہت اچھا تھا لیکن کیونکہ وہ اسٹیج پر پرفارم کرنے پر زیادہ یقین رکھتے ہیں جس میں ایک کنسرٹ میں عوام کی جانب سے رد عمل مل جاتا ہے اس لیے اداکاری سے زیادہ میوزک ٹور کرنے میں زیادہ بہتری نظر آتی ہے۔‘
پاکستان میں میوزک کے بے انتہا کمرشلائزیشن کا شکار ہونے پر ان کا کہنا تھا کہ ’لوگ اب آسانیاں زیادہ ڈھونڈنے لگے ہیں۔ لوگ اب نئے گانوں پر زیادہ محنت نہیں کرنا چاہتے۔ کوئی فوک دھن اٹھالی، کوئی مشہور گانا ری مکس کرلیا، کسی کے گانے کی کوئی لائن اٹھا کر کام چلالیا، یہی وجہ ہے کہ چار سے چھ ماہ بعد وہ گانے کسی کو یاد نہیں رہتے۔‘