سیاہ بھنورے کے لاروا یا ’سپر وارمز‘ کو انسان پہلے ہی اپنے پالتو ریپٹائلز کی خوراک کے طور پر استعمال کر رہے تھے لیکن سائنسدانوں کی جانب سے پلاسٹک کو ہضم کرنے کی ان کی غیر معمولی صلاحیت دریافت ہونے کے بعد اب ان کی اہمیت مزید بڑھ سکتی ہے۔
آسٹریلیا کی کوئنز لینڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ بے چارے لاروا جن کا سائنسی نام زوفوباس موریو ہے، نہ صرف پولی سٹیرین کو چبا سکتے ہیں بلکہ پولی سٹیرین کھا کر پھلتے پھولتے بھی ہیں۔
سائندانوں کی ٹیم نے تین ہفتوں کے دوران سپر وارمز کو مختلف خوراکیں کھلائیں جن میں کچھ کو پولی سٹیرین فوم، کچھ کوچوکر اور دیگر کو فاسٹنگ ڈائٹ دی گئی۔
یونیورسٹی کے سکول آف کیمسٹری اینڈ مالیکیولر بائیو سائنسز سے وابستہ ڈاکٹر کرس رنکے نے کہا: ’ہم نے پایا کہ سپر وارمز نہ صرف پولی سٹیرین والی خوراک کھاتے ہیں بلکہ اس سے ان کے وزن میں معمولی اضافہ بھی ہوتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کیڑے غالباً اپنی آنتوں موجود جرثوموں کی مدد سے پولی سٹیرین سے توانائی حاصل کر سکتے ہیں۔‘
پولی سٹیرین خطرناک پلاسٹک کے فضلے کا موجب بنتا ہے جو کیمیکلز کو پانی کے ذرائع میں شامل کر جا سکتا ہے اور مائیکرو پلاسٹک میں ٹوٹ سکتا ہے۔ لہذا اگر یہ نامیاتی عمل صنعتی پیمانے پر کام کر سکے تو سپر وارمز انسانی آلودگی کی سطح کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر رنکے نے کہا: ’سپر وارمز چھوٹے ری سائیکلنگ پلانٹس کی طرح ہوتے ہیں جو پولی سٹیرین کو اپنے منہ سے توڑ دیتے ہیں اور پھر اسے اپنے آنتوں میں موجود بیکٹیریا کو کھلاتے ہیں۔‘
محققین نے پولی سٹرین اور سٹائرین کو ختم کرنے کی والے متعدد انکوڈ انزائمز کو تلاش کرنے کے لیے میٹاجینومکس نامی تکنیک کا استعمال کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر رنکے نے کہا: ’اس ردعمل سے ٹوٹنے والی پلاسٹک کو پھر دوسرے جرثومے بائیو پلاسٹکس جیسے مرکبات بنانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔‘
ٹیم نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ یہ بائیو اپ سائیکلنگ پلاسٹک کے فضلے کی ری سائیکلنگ کر سکے گی اور اس سے لینڈ فل بھی کم ہو جائے گا۔
تحقیق کی شریک مصنفہ پی ایچ ڈی کی طالب علم جیاروئی سن نے کہا کہ ان کا مقصد لیباریٹری میں گٹ بیکٹیریا کی نشوونما کرنا اور پولی سٹیرین کو کم کرنے کی اس کی صلاحیت کو مزید جانچنا ہے۔
جیاروئی سن نے کہا: ’اس کے بعد ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ہم اس عمل کو ایک پورے ری سائیکلنگ پلانٹ کی سطح تک کیسے بڑھا سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر رنکے نے کہا کہ پلاسٹک کے فضلے کے لیے بائیو ڈی گریڈیشن کے بہت سے مواقع موجود ہیں۔
انہوں نے کہا: ’ہماری ٹیم اس سائنسی تحقیق کو آگے بڑھانے کے لیے بہت پرجوش ہے۔‘
یہ تحقیق سائنسی جریدے ’مائکروبیل جینومکس‘ میں شائع ہوئی تھی۔
© The Independent