دونوں ہاتھوں سے محرومی کے باوجود بڑھئی شمشاد علی دیگر معذور افراد کے لیے مثال بن گئے ہیں کیوں کہ وہ نہ صرف خود اپنی دکان پر کام کرتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ دیگر کاریگروں کو بھی روزگار فراہم کر رکھا ہے۔
خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کے نواحی علاقے جمال گڑھی کے رہائشی شمشاد علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جوانی میں ان کے دونوں ہاتھ مچھلی کے شکارکے دوران بارود پھٹنے سے ضائع ہوگئے تھے لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ بقول شمشاد: ’ہسپتال سے آتے ہی اپنے کام کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ کس طرح دوبارہ محنت شروع کروں گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ انہیں ہاتھوں سے معذور ہوئے 25 سال ہوگئے ہیں اور فرنیچر سازی کا کام شروع کرنے سے قبل انہوں نے اپنی زمین پر کاشت کاری کی اور ساتھ ہی رات کو فرنیچر کا ہنر سیکھا۔
شمشاد کے مطابق: ’شروع میں لکڑی سے چھوٹے چھوٹے کھلونے، کشتیاں اور فیصل مسجد بناتا تھا اور یہ ساری چیزیں شوق کے طور پر تیار کرتا تھا۔‘
ہاتھوں کے بغیر کام میں کیا مشکلات پیش آئیں؟
شمشاد علی نے بتایا کہ وہ فرنیچر سازی میں تمام کام کرسکتے ہیں۔ ’جو مشینیں میرے پاس ہیں وہ تمام چلاسکتا ہوں۔ اس میں صرف ہتھوڑے کا کام نہیں کرسکتا کیوں کہ وہ انگلیوں سے پکڑنی ہوتی ہے اور اس کے علاوہ کیل نہیں ٹھونک سکتا، باقی جتنا کام ہے وہ کرسکتا ہوں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’کام میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور بل میں بچت کے لیے گھر کے سامنے بہنے والی چھوٹی نہر پر بجلی کی ٹربائن بھی لگادی ہے جس سے تھوڑی بہت بجلی پیدا ہوتی ہے۔‘
ہر قسم کا فرنیچر!
شمشاد نے بتایا کہ ’ہمارا روزگار فرنیچر کا ہے۔ کوئی بھی تصویر دکھا دے تو وہ بنا کر دیتے ہیں۔‘
’لوگ انٹرنیٹ سے فرنیچر کی تصاویر ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں اور جو بھی فرنیچر کی تصویر لے آتے ہیں تو شکر ہے کہ وہ تیار کرکے دیتے ہیں۔‘