پاکستان کے بیشتر علاقے ان دنوں شدید گرمی اور ہیٹ ویو کا سامنا کر رہے ہیں، لیکن صوبہ سندھ کے شہر جیکب آباد نے دنیا کے گرم ترین شہروں میں اپنی جگہ بنا رکھی ہے۔
جیکب آباد گذشتہ ماہ 14 مئی کو 51 ڈگری درجہ حرارت کے ساتھ دنیا کا گرم ترین شہر بنا تھا اور اب بھی کم و بیش صورت حال ویسی ہی ہے، لیکن اس حدت کا سب سے زیادہ شکار شاید خواتین ہیں اور انہیں گرم موسم کے ساتھ پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے۔
اس شہر کے نواحی علاقے میں مقیم رضیہ کے پاس کبھی کبھار ہی اتنا پانی ہوتا ہے کہ وہ اپنی چند ماہ کی بیٹی تمنا کو نہلا سکیں۔
رضیہ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’ہم ڈول سے بچوں کو نہلانے کے لیے پانی لاتے ہیں تو وہ تھوڑا پرسکون ہو جاتے ہیں۔‘
شہر کے نواح میں ہی ایک خاندان روبینہ کا بھی ہے۔
ان کے گھر میں بجلی نہیں اور سب چارپائیوں پر بیٹھے جامد پنکھے کو گھور رہے ہیں جبکہ ارد گرد مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں۔
روبینہ کہتی ہیں کہ ’گرمی میں ہم بس بیٹھے رہتے ہیں۔ پنکھا چلے یا نہ چلے۔ بجلی ہو یا نہ ہو۔ بس صرف اللہ سے ہی دعا کرتے ہیں۔‘
روبینہ نے یہ بھی بتایا کہ کھانا بناتے ہوئے اکثر انہیں چکر آنے لگتے ہیں۔
وزارت ماحولیاتی تبدیلی کا کہنا ہے کہ اس سال پاکستان میں موسم بہار آیا ہی نہیں بلکہ سردیوں کے بعد فوراً سے گرمی نے زور پکڑ لیا۔
جیکب آباد کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت پاکستان میں اس موسمیاتی تبدیلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
جیکب آباد میں گرم موسم کے اثرات سے نمٹنے کے لیے تین ہیٹ سٹروک مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ ان مراکز میں گرمی سے متاثرہ خواتین و حضرات کو طبی امداد دی جاتی ہے۔
ایسے ہی ایک مرکز میں رضاکار کے طور پر کام کرنے والی لیزا خان نے تصدیق کی ہے کہ گرمی کا سب سے زیادہ اثر خواتین اور بچوں پر ہوا ہے۔
لیزا نے بتایا: ’گرمی سے خواتین اور بچے متاثر ہوئے ہیں۔ اگر خواتین کی بات کریں تو چاہے دن ہو یا رات۔ بارش ہو یا گرمی انہیں کھانا پکانا ہوتا ہے۔ دیہات میں بھی انہیں کھیتوں میں جا کر کام کرنا ہوتا ہے اور ان کے سر پر چھت بھی نہیں ہوتی۔‘
گرم موسم کے ساتھ بجلی کی بندش اور پانی کی قلت وہ اضافی مشکلات ہیں جن کا سامنا جیکب آباد کے شہری روزانہ کی بنیاد پر کرتے ہیں۔
جیکب آباد کے نواحی علاقوں میں شدید غربت کا شکار افراد کی تعداد دو لاکھ کے قریب ہے۔ یہ وہ افراد ہیں جو موسمیاتی تغیر کا سب سے زیادہ نشانہ بنتے ہیں۔