انڈیا میں حالیہ دنوں میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی قبر کے حوالے سے تنازع شدت اختیار کر گیا ہے جہاں انتہا پسند ہندو تنظیم کی جانب سے مہاراشٹر کے علاقے خلد آباد میں واقع ان کی قبر کو منہدم کرنے کی دھمکیوں کے بعد ناگ پور اور دیگر علاقوں میں مذہبی کشیدگی پھیل گئی۔
ایسے موقعے پر انڈیا میں مغل بادشاہوں کے ورثے پر نئی بحث چھڑ گئی اور کولکتہ میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے والی بہادر شاہ ظفر کی پڑپوتی سلطانہ بیگم کی کہانی منظر عام پر آئی ہے۔
سلطانہ بیگم کون ہیں؟
انگریزی اخبار ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق مغل خاندان کی نسل آج انڈیا میں غربت کی چکی میں پس رہی ہے۔ بہادر شاہ ظفر کی پڑپوتی 60 سالہ سلطانہ بیگم مغل سلطنت کے ایک عظیم الشان ورثے کا حصہ ہیں مگر آج انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہیں۔
سلطانہ بیگم کولکتہ کے مضافات میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ایک دو کمروں کے تنگ و تاریک مکان میں مقیم ہیں جہاں بنیادی سہولتوں کی بھی کمی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے سلطانہ بیگم نے کہا: ’کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ تاج محل تعمیر کرنے والے شہنشاہوں کی اولاد اب کسمپرسی میں زندگی بسر کر رہی ہے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی زندگی صرف ذاتی مشکلات کی کہانی نہیں بلکہ اس وسیع تر مسئلے کی علامت بھی ہے کہ انڈیا میں شاہی خاندانوں کے زوال کے بعد ان کے وارثوں کو بھلا دیا گیا۔
کولکتہ کے علاقے ہاوڑہ میں انہیں پانی کے لیے گلی کے عوامی نلکوں پر انحصار اور کھانے پکانے کے لیے مشترکہ کچن استعمال کرنا پڑتا ہے۔
بہادر شاہ ظفر 24 اکتوبر 1775 کو دہلی میں پیدا ہوئے اور1837 میں مغلیہ سلطنت کے آخری بادشاہ کے طور پر تخت نشین ہوئے مگر اس وقت سلطنت برطانوی سامراج کے شکنجے میں آ چکی تھی۔
برطانوی افواج نے ایک ماہ کے اندر اندر دہلی کو گھیر کر بغاوت کو کچل دیا، اور شاہی خاندان کے ہتھیار ڈالنے کے باوجود بہادر شاہ ظفر کے 10 بیٹوں کو قتل کر دیا۔
1857 کی جنگ آزادی میں انہیں ایک علامتی رہنما کے طور پر پیش کیا گیا مگر ناکامی کے بعد انہیں برطانیہ نے رنگون (موجودہ میانمار) جلاوطن کر دیا گیا، جہاں 1862 میں ان کا انتقال ہوا۔
سلطانہ بیگم کی زندگی 1980 کی دہائی میں اس وقت مشکلات کا شکار ہوئی جب ان کے شوہر شہزادہ مرزا بیدار بخت کا انتقال ہوا۔
اس کے بعد سے وہ صرف چھ ہزار روپے ماہانہ پینشن پر گزارا کر رہی ہیں جو ان کے چھ بچوں کے اخراجات کے لیے ناکافی ہے، حکومتی امداد کے لیے دی گئی کئی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں اور ان کی بیٹیاں بھی مالی مشکلات کے باعث کوئی مدد نہیں کر سکتیں۔ آج وہ اپنی غیر شادی شدہ بیٹی مدھو بیگم کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں۔
کئی انسانی حقوق کی تنظیمیں سلطانہ بیگم جیسے شاہی خاندان کے افراد کے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہی ہیں تاکہ ان کے موجودہ حالات اور شاہی پس منظر کے درمیان فرق کو اجاگر کیا جا سکے۔
سلطانہ بیگم نے روزگار کے لیے کئی کوششیں کیں جیسے چائے کا سٹال لگانا اور ملبوسات کی سلائی کرنا مگر یہ کاروبار اتنی آمدنی نہ دے سکے کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کی کفالت کر سکیں۔
سلطانہ بیگم کی کہانی صرف ان کی ذاتی زندگی کا المیہ نہیں بلکہ ایک بڑا سوال بھی اٹھاتی ہے۔ ایک طرف انڈین حکومت مغل دور کے یادگار مقامات کو محفوظ رکھنے اور ان کی تاریخ کو فخر کے ساتھ بیان کرنے میں مصروف ہے مگر دوسری طرف انہی حکمرانوں کے وارث غربت کا شکار ہیں۔
بہادر شاہ ظفر نے جب مغل سلطنت کا تخت سنبھالا تو ان کا اقتدار صرف دہلی کے لال قلعے تک محدود تھا۔ وہ شاعری، موسیقی اور خطاطی میں مہارت رکھتے تھے اور ’ظفر‘ تخلص سے شاعری کرتے تھے۔