چین کے نیم خود مختار شہر ہانگ کانگ میں گذشتہ کئی دنوں سے جاری ہزاروں افراد کے مظاہروں نے پورے شہر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پیر کے روز مظاہرین احتجاج کے دوران سرکاری عمارتوں میں داخل ہوگئے، جن میں ہانگ کانگ کی حکومت کا ہیڈکوارٹر اور قانون ساز ادارے کی عمارت بھی شامل ہیں۔ مظاہرین کی جانب سے قانون ساز ادارے کی عمارت میں برطانوی پرچم لہرانے کی کوشش بھی کی گئی۔
یہ مظاہرے حوالگی کے ایک مجوزہ متنازع قانون کے خلاف کیے جا رہے ہیں، جس کے تحت ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے مشکوک اور مشتبہ افراد کو چین کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ ایسا تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ ہانگ کانگ کے شہریوں کو کسی جرم یا جرم میں ملوث ہونے کے شبہ میں چین یا کسی اور ملک کے حوالے کیا جا رہا ہو۔ اس قانون کے حامیوں کے مطابق یہ قانون ہانگ کانگ شہر کو جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہ بننے سے محفوظ رکھے گا جبکہ مخالفین اس قانون کو چین کی جانب سے سیاسی حریفوں کو کچلنے کی ایک کوشش قرار دیتے ہیں۔
مظاہرے کب سے جاری ہیں؟
ہانگ کانگ میں یہ مظاہرے 31 مارچ سے جاری ہیں۔ 9 جون کو بل کی مخالفت میں لاکھوں لوگ ہانگ کانگ کی سڑکوں پر نکلے تھے۔12 جون کو ہونے والے مظاہرے کے خلاف پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور پیپر سپرے کے استعمال کے بعد یہ مظاہرے پرتشدد شکل اختیار کر گئے تھے۔ چین کے ساتھ الحاق کے بعد یہ ہانگ کانگ میں ہونے والے پرتشدد ترین مظاہرے تھے، ورنہ ہانگ کانگ پر امن مظاہروں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔
ہانگ کانگ حکومت کیا کہتی ہے؟
ہانگ کانگ حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ حوالگی کے قانون میں ترمیم کی جائے گی۔ اس قانون کا اطلاق مکاو اور تائیوان پر بھی ہوگا۔ ترمیم شدہ قانون کے تحت جرم ثابت ہونے پر سات سال یا اس سے زیادہ کی سزا بھگتنے والے افراد کو چین کے حوالے کیا جا سکے گا۔
ہانگ کانگ کے حکام کی جانب سے بارہا کہا گیا ہے کہ یہ قانون چین کی مرکزی حکومت کی جانب سے نہیں بھیجا گیا لیکن بیجنگ نے اس قانون کی حمایت کی ہے۔ چینی وزیر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ ہانگ کانگ کی حکومت کے اس قانون کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔چین کے سرکاری ٹی وی کی جانب سے بھی اس قانون کو جائز قرار دیا گیا ہے۔
بل مخالفین کیا کہتے ہیں؟
ہانگ کانگ کے رہائشیوں میں اس قانون کے حوالے سے شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ قانون سے نالاں افراد کے مطابق چینی حکام اس قانون کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق نیا قانون ’ایک ملک دو نظام‘ کا باضابطہ خاتمہ ہوگا۔ 1997 میں ہانگ کانگ کو برطانیہ کی جانب سے چین کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ چین کے مقابلے میں ہانگ کانگ کے رہائشیوں کو کئی گنا زیادہ شخصی اور سیاسی آزادی حاصل ہے۔
ماہرین قانون بھی مجوزہ حوالگی قانون کے تحت بھیجے جانے والے ملزمان کے حقوق کے حوالے سے تشویش کا شکار ہیں۔ چین میں ملزموں کے خلاف فرد جرم عائد کی جانے کی شرح 99 فیصد ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے چین پر قید کے دوران ملزمان پر تشدد اور قانونی حقوق نہ دینے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔
بل مخالفین کی جانب سے ہانگ کانگ میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ پر بھی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ہانگ کانگ کے رہائشیوں کی جانب سے 2014 کی 79 روزہ احتجاجی مہم کے دوران رہنماؤں اور سرگرم کارکنوں کی گرفتاری کو بھی بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ اور شہری آزادی پر بڑھتی پابندیوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لام اس بات پر قائم ہیں کہ وہ اس قانون کو پاس کروا لیں گی، گو کہ وہ وقتی طور پر اس بل کو معطل کر چکی ہیں لیکن مظاہرین کی جانب سے بل کی مکمل منسوخی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔کیری لام کی جانب سے پرتشدد مظاہروں کی مذمت بھی کی گئی۔
بل کے حامیوں کا موقف
اس بل کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ بل قوانین میں موجود سقم کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ہانگ کانگ کو جرائم پیشہ افراد کی جنت بننے سے روکنے کے لیے اس بل کا منظور ہونا ضروری ہے جبکہ حکام کی جانب سے بھی اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ایسے افراد بھی حوالگی قانون کے دائرہ کار میں نہیں آسکیں گے جن کو ممکنہ طور پر سزائے موت دی جا سکتی ہو۔
ہانگ کانگ کی خصوصی حیثیت
ہانگ کانگ خصوصی حیثیت کا حامل شہر ہے۔1842 میں ایک جنگ کے بعد جزیرہ ہانگ کانگ باضابطہ طور پر ایک برطانوی کالونی قرار دیا گیا ۔ 1950 کی دہائی میں یہ ایک مصروف اور اہم تجارتی مرکز میں تبدیل ہو گیا۔ 1984 میں برطانیہ اور چین میں ہونے والے ایک معاہدے کے بعد یکم جولائی 1997 کو برطانیہ کی جانب سے ہانگ کانگ کا نظام چین کے حوالے کر دیا گیا۔ اس الحاق کو ’ایک ملک، دو نظام‘ کے نعرے کے تحت عمل میں لایا گیا تھا، جس کی رُو سے 50 سال تک ہانگ کانگ کو دفاع اور خارجہ کے علاوہ ہر معاملے میں خودمختاری اور آزادی حاصل ہوگی۔