جنوبی پنجاب کے شہر روجھان سے پاکستان ٹیلی ویژن نیوز کے لیے بطور فری لانسر کام کرنے والے صادق آباد کے صحافی شیر محمد ساہی کو پیر کی شب مبینہ طور پر اغوا کرلیا گیا۔
پولیس کے مطابق مغوی صادق آباد سے ٹریکٹر خریدنے کے لیے اپنی گاڑی پر روجھان آئے تھے، جہاں سے انہیں اغوا کیا گیا۔
پولیس نے مقدمہ درج کرکے کارروائی شروع کردی ہے، تاہم ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
دوسری جانب پی ٹی وی نیوز انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شیر محمد ساہی ان کے لیے بطور فری لانسر کام کرتے تھے، مستقل یا کنٹریکٹ ملازم نہیں تھے، تاہم واقعے سے متعلق معلومات حاصل کی جارہی ہیں اور جس حد تک ہوسکا ان کی بازیابی کے لیے سرکاری سطح پر معاملہ اٹھایا جائے گا۔
واقعہ کیسے پیش آیا؟
مغوی شیر محمد ساہی کے قریبی دوست شکیل جٹالہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا، ’شیر محمد پیر کی رات پرانا ٹریکٹر خریدنے کے لیے صادق آباد سے اپنی گاڑی پر روجھان آرہے تھے اور انہوں نے مجھے بھی ساتھ چلنے کو کہا مگر ضروری کام کی وجہ سے میں ساتھ نہیں جاسکا۔‘
بقول شکیل جٹالہ: ’ان کے ساتھ اور کون آیا یا کوئی نہیں آیا، اس بارے میں معلوم نہیں ہے، تاہم رات نو بجے میرے نمبر پر شیر محمد کے فون سے کال آئی اور اغوا کار نے بتایا کہ ہم آپ کے دوست کو اغوا کرکے لے جارہے ہیں۔ ان کی گاڑی شاہ والی کی حدود میں سڑک کنارے کھڑی ہے آکر لے جائیں۔‘
مزید پڑھیے: اغوا کے بعد صحافی مطیع اللہ جان کے ساتھ کیا ہوا؟
شکیل نے بتایا کہ پہلے تو انہوں نے اسے مذاق سمجھا مگر جب دوبارہ کالز کیں تو نمبر بند تھا، اس کے بعد انہوں نے مغوی کے اہل خانہ اور پولیس کو اطلاع دی اور صبح سویرے ہی پولیس کے ہمراہ جائے وقوعہ پر پہنچے تو گاڑی اسی جگہ موجود تھی، جہاں اغوا کاروں نے بتایا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’گاڑی لاک تھی اور وہ چابی بھی ساتھ لے گئے تھے۔‘
پولیس تھانہ شاہ والی میں مغوی کے بھائی شاہد محمود کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا ہے، جس میں مدعی کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی شیر محمد نے ان کی کرولا گاڑی لی اور بیعانہ کے لیے رکھے گئے 10 ہزار روپے گھر ٹریکٹر خریدنے چلے گئے، جس کے بعد انہیں بھائی کے دوست شکیل جٹالہ سے اطلاع ملی کہ ان کے بھائی کو اغوا کرلیا گیا ہے۔
پولیس کارروائی اور پی ٹی وی کا ردعمل
تھانہ شاہ والی کے تفتیشی افسر خلیل صدیقی کے مطابق انہیں واقعے کی اطلاع رات کو ہی مل گئی تھی، لہذا پولیس نے شیر محمد کے اغوا کا مقدمہ درج کرکے کارروائی شروع کر دی۔
انہوں نے بتایا کہ ’جس علاقے میں یہ واردات ہوئی ہے وہاں بدنام زمانہ ڈکیٹ پہلے بھی کئی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ یہ علاقہ جرائم کے لحاظ سے خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ ابھی چھان بین کر رہے ہیں۔‘
خلیل صدیقی کے مطابق: ’یہ معاملہ کسی ذاتی دشمنی یا تاوان کے لیے ہوسکتا ہے۔ ہم ہر پہلو سے تفتیش کر رہے ہیں اور جلد ہی سراغ لگا کر شیر محمد کو بازیاب کروایا جائے گا۔‘
یہ بھی پڑھیے: اوکاڑہ کی وکیل خاتون کے اغوا کا معمہ
دوسری جانب پاکستان ٹیلی ویژن کے انچارج نمائندگان عامر بشیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں رات کو ہی شیر محمد کے اغوا کی اطلاع مل گئی تھی۔
انہوں نے بتایا: ’ابتدائی معلومات کے مطابق انہیں ذاتی کام پر جاتے ہوئے اغوا کیا گیا ہے۔ بظاہر یہ صحافتی ذمہ داریوں سے متعلق واقعہ نہیں لگتا مگر ہم بھی معلومات حاصل کر رہے ہیں اور ان کے اہل خانہ سے رابطے میں ہیں۔‘
عامر بشیر کے بقول شیر محمد پی ٹی وی کے مستقل یا کنٹریکٹ ملازم نہیں تھے لیکن انہیں چند ماہ پہلے مخصوص کوریج کے لیے فری لانسر بنایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’اس معاملے میں ابھی تک کوئی ایسی اطلاع نہیں ہے کہ ان کی صحافتی ذمہ داریوں کے پیش نظر کوئی دشمنی ہو یا دھمکی ملی ہو۔ ویسے بھی ٹی وی کے صحافیوں سے کسی نے کیا دشمنی کرنی ہوتی ہے؟‘
عامر بشیر نے مزید بتایا کہ وہ اس معاملے کو اپنے اعلیٰ حکام کے علم میں لارہے ہیں اور جو بھی قانونی کارروائی کے لیے ضروری ہوا، وہ ادارے کی سطح پر کیا جاسکتا ہے۔