ہر انسان کی خواہشات ہوتی ہیں مگر ان کا پورا نہ ہونے کا الزام کسی اور کو دینا بھی صحیح نہیں ہے۔ ان خوایشات میں سے ایک بیٹا ہونے کی خواہش بھی ہے۔ ٹھیک ہے اولاد نرینہ کی خواہش کرنا کوئی گناہ نہیں کیونکہ جہاں بیٹی کو رحمت کہا گیا ہے وہیں بیٹے کو نعمت قرار دیا گیا ہے۔
ہمارے ہاں یہ تاثر عام ہے کہ ایک بیٹا ہی آپ کی نسل کو چلانے کا ذمہ دار ہوتا ہے اور جن کا کوئی بیٹا نہیں ہوتا ان کو معاشرہ بدقسمت تصور کرتا ہے۔ یہ وہ ناانصافی ہے جو عورت کو سہنا پڑ رہی ہے۔
کسی گھر میں دوسری یا تیسری بیٹی پیدا ہونے پر عورت کے سر پر طلاق یا پھر شوہر کی دوسری شادی کی تلوار لٹکنا شروع ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو اپنے ہی گھر میں غیرمحفوظ سمجھنے لگتی ہے۔ ڈپریشن اس کا ایک منفی پہلو بن کر سامنے آتا ہے۔
اس خواہش کی شدت عورت کے دل میں ایسی جگہ بنا لیتی ہے کہ وہ اولاد نرینہ کے لیے جعلی پیروں کے پاس چلی جاتی ہیں اور کئی دیگر مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔
یہ داستان بھی ایسی ہی مظلوم عورت کی ہے جسے معاشرے کی اس حقیقت نے جکڑ رکھا ہے۔ اللہ نے اس بار بھی اسے بیٹی سے نوازا تھا۔ میں اسے مبارک باد دینے اس کے گھر گئی۔
صحن میں جھولے میں ہی بہت پیاری سی بچی سو رہی تھی۔ پاس ہی اس کی ماں سبزی کاٹ رہی تھی۔ میں نے ماں کو مبارک باد دیتے ہوئے بچی کو گود میں لے لیا۔ پیار کرنے کے بعد واپس جھولے کے حوالے کر دیا۔ اس کی ماں کے جواب نے مجھے البتہ حیران کر دیا۔
’باجی کیا مبارک دے رہی ہو، چوتھی بیٹی ہے۔ آپ تو مبارک ایسے دے رہی ہو جیسے میرا بیٹا پیدا ہوا ہے۔‘
میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔ وہ بہت مایوس اور اداس لگ رہی تھی۔ پاس ہی اس کی دو بیٹیاں اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے سبزی صاف کرنے میں اس کی مدد کر رہی تھیں۔
میں نے اس گڑیا کو ایک بار پھر اپنی گود میں لیتے ہوئے پوچھا: ’اگر اتنی فالتو ہے تو میں لے جاؤں اسے؟‘
جواب ملا، ’نہ نہ فالتو تو نہیں ہے پر بیٹا ہوتا تو مٹھائی بھی کھلاتی۔ میرے شوہر کو اس بار پکا یقین تھا کہ بیٹا ہوگا مگر اللہ نے پھر بیٹی دے دی۔‘
اس کی یہ باتیں میرے دل کو دکھی کر رہی تھیں تو میں نے اس سے پوچھ لیا کہ کیا آپ کسی کی بیٹی نہیں ہیں؟ بیٹیاں تو اللہ کی رحمت ہوتیں ہیں اور آپ تو خوش قسمت ہو کہ اللہ نے آپ کو اپنی رحمت سے نوازا ہے۔‘
کافی دیر میرے سمجھانے بھجانے پر میں نے محسوس کیا کہ میری باتوں سے قدرے وہ مطمئن ہوئی ہے۔ وہ شکستہ لہجے میں گویا ہوئی کہ ’میرا شوہر کہتا ہے کہ اس کا وارث کوئی نہیں جو اس کے مرنے کے بعد دعا کرے گا۔
’مجھے تو بیٹیاں پسند ہیں پر مجھے دکھ ہوتا ہے جب ان کا باپ گھر آتا ہے تو یہ اس کے سامنے سہم کے خاموش رہتی ہیں۔ زرا شور ہو جائے تو وہ غصہ کرتا ہے کہ ان کو کمرے میں نہ آنے دیا کرو۔
’باجی میری شادی کو نو سال ہوگئے ہیں۔ پہلے میرا شوہر ایسا نہیں تھا۔ میرا بہت خیال بھی رکھتا تھا مگر اب وہ پریشان رہتا ہے بےجا ڈانٹ ڈپٹ کرتا ہے۔ میں نے اس بار بہت دعائیں کی کہ اللہ مجھے بیٹا دے تاکہ میرا شوہر میرے ساتھ پہلے جیسا سلوک کرے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا وہ تشدد کرتا ہے؟ میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے پوچھ لیا۔
ماں بولی: ’نہیں کبھی اس نے مجھ پر ہاتھ نہیں اٹھایا پر اب وہ یہی کہتا ہے کہ تم سے اگلی بار بیٹا نہ ہوا تو دوسری شادی کروں گا۔‘
ان الفاظ کی ادائیگی کرتے وقت اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے اور میں سوچ رہی تھی کیا آج کے دور کو بھی جنگل کا دور کہنا کیا غلط ہوگا؟ کیا ہم مجموعی طور پر اب بھی اخلاقی پستی کا شکار ہیں جہاں عورت بظاہر زندہ مگر اصل میں مردہ جسم لیے پھرتی ہیں۔
دیکھیں عورت کی کہیں نہ کہیں یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ اس کا شریک سفر اس کا وفادار ہو اس کی عزت کرے، اس کو تحفظ دے مگر اس کے برعکس مرد خاندانی نظام کی تذلیل کر رہا ہوتا کہیں پر تو بیٹیوں کو وراثت کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے جو ان کا شرعی حق ہے۔
ان کے عجیب خودساختہ نظام اور رواج کے مطابق عزتیں اور پگڑیاں بیٹیوں کے حصے میں ڈال دی جاتی ہیں جبکہ جائیداد، وراثت بیٹوں کی جھولی میں۔
جس معاشرے میں بیٹی کو حقیر سمجھا جاتا ہو میرے خیال میں وہ معاشرہ عزت و تکریم کے معنی سے عاری ہے اور بےحسی اس کا زیور ہے۔
اولاد نرینہ کی خواہش کرنا غلط نہیں مگر بیٹیوں کی پیدائش پر افسوس کرنا اللہ کی رحمت سے منہ پھیرنے کے مترادف ضرور ہے۔