لاہور میں ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے زیرانتظام چلنے والی اورنج لائن ٹرین کے اخراجات اور آمدن میں فرق بڑھنے کے بعد اس کے کرائے میں کمی کا مطالبہ سامنے آ رہا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اورنج لائن ٹرین کے اخراجات پانچ ارب جبکہ آمدن ایک ارب روپےسالانہ ہیں۔ آمدن اور اخراجات کے فرق کو کم کرنے کے لیے تجاویز زیر غور ہیں مگر ابھی تک کسی بھی موثر حکمت عملی پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
ماس ٹرانزٹ اتھارٹی نے دو سال کے دوران صوبائی کابینہ کو متعدد بار تجاویز بھجوائیں لیکن ان پر عمل نہیں ہوا جس سے آمدن اور اخراجات میں فرق بڑھتا جا رہا ہے۔
پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کی جانب سے حکومت کواورنج لائن ٹرین پر مسافروں سے کرایہ فی کلومیٹر کے حساب سےوصول کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ جس کی وجہ اندرون شہر ٹرین کے روٹ پر چلنے والے چنگچی رکشوں کا کرایہ کم ہونے پر مسافروں کی تعداد میں کمی بتائی گئی ہے۔
دوسری وجہ پہلے اسٹیشن سے آخری اسٹیشن تک ٹرین کا کرایہ فی مسافر 40 روپے ہے اسے کلومیٹرز کے مطابق مقرر کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
ماس ٹرانزٹ حکام کے مطابق کرائے ایڈجسٹ کر کے چار بریکٹس بنانے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہے تاکہ روٹ کےساتھ چلنے والے رکشوں کے مقابلہ میں کرائے کم کیے جائیں اور مسافروں کی زیادہ سے زیادہ تعداد ٹرین پر سفر کرے، دوسرا ٹرین کے اسٹیشنز کو کمرشل کیا جائے تاکہ آمدن میں اضافہ ہوسکے۔
اتھارٹی نے تیسری بار تجاویز حکومت کو بھجوا دی ہیں جو کابینہ کی منظوری کے بعد نافذالعمل ہوجائیں گی۔
فی کلو میٹر کرائے کا فارمولہ کیا ہے؟
پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی نے فی کلومیٹر کے حساب سے کرایہ وصول کرنے کی سفارشات حکومت کو ایک بار پھرپیش کردیں۔
کابینہ کو بھجوائی گئی تجاویز دستاویزات کے مطابق اسٹیشن ٹو اسٹیٹشن کی بجائے فی کلو میٹر کے حساب سے کرایے کی وصولی سے مسافروں کی تعداد بڑھے گی۔ اورنج ٹرین کا چار کلو میٹر تک کا کرایہ 20 روپے مقرر کرنے کی بھی سفارشات کی گئیں ہیں۔
اس کے علاوہ اورینج ٹرین کے چار سے آٹھ کلو میٹر سفر کا کرایہ 25 روپے کرنے کی سفارشات کی گئیں۔ اورنج لائن ٹرین کا آٹھ سے 12 کلو میٹر سفر کا کرایہ 30 روپے، 12 سے 16 کلو میٹر کے سفر کا کرایہ 35 روپے مقرر کرنے کی سفارشات شامل ہیں۔ جبکہ 16 کلو میٹر سے اضافی سفر پر کرایہ 40 روپے تک مقرر کرنے کی تجویز ہے۔
حکام کے مطابق نئی سفارشات سےروزانہ کی بنیاد پر مسافروں کی تعداد میں ڈیڑھ لاکھ تک اضافہ ہوگا۔ مسافروں کی تعداد بڑھنے اور نئی کرایوں کی سفارشات سے روزانہ 40 لاکھ روپے کی آمدن حاصل ہوگی۔
اس معاملہ پر جنرل مینجر ماس ٹرانزٹ اتھارٹی عزیر شاہ نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ اورنج لائن ٹرین کی سالانہ آمدن ایک ارب روپے جبکہ اخراجات پانچ ارب روپے سے زائد ہیں۔ اس خلا کو کم کرنے کے لیے نئی تجاویز تیار کی گئی ہیں۔ سابقہ حکومت کو بھی ایسی سفارشات دو بار پیش کیں مگر عمل نہیں ہوا۔
عزیر شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اورنج لائن ٹرین کا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی بیشی سے تعلق نہیں کیونکہ یہ منصوبہ الیکٹرک سسٹم کے تحت چلتاہے لہذ بجلی کی قیمتوں سے اثر پڑتا ہے۔‘
ان کے بقول ’اورنج لائن کا گرمیوں میں سالانہ 13بل کروڑ روپے جبکہ موسم سرما میں اے سی نہ چلنے کی وجہ سے نو کروڑ روپے سالانہ بجلی کابل ادا کیا جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’یہ سب کچھ سالانہ چار ارب روپے سے زائد سبسڈی میں آتا ہے اس لیے ہم نے فیصلہ کیاہے کہ اس کا کرایہ سٹاپ کے بجائے کلومیٹرز کے مطابق رکھا جائے اور اس کی تین یا چار بریکٹس بنائی جائیں تاکہ مسافروں کی تعداد میں اضافہ ہو اور آمدن بھی بڑھ جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اورنج لائن ٹرین کا ٹریک کیونکہ اوور ہیڈ ہے اس لیے نیچے چلنے والے چنگچی رکشے ایک سٹاپ سے دوسرے تک 30 روپے لیتے ہیں جبکہ اورنج لائن کا کم از کم 40 روپے کرایہ ہے۔ لہذا جب کلو میٹرز کے حساب سےکرایہ مقرر ہوگا تو ایک سٹاپ سے دوسرے تک کم از کم کرایہ 20 روپے ہوجائے گا اس لیے سٹاپ ٹو سٹاپ سفر کرنے والوں کے لیے ٹرین میں سفر سستا ہوجائے گا اور وہ رکشوں کی بجائے ٹرین میں سفر کریں گے۔‘
رکشہ ڈرائیوروں اور عوامی ردعمل:
اورنج لائن روٹ کے نیچے موڑ سمن آباد سے چوبرجی تک رکشہ چلانے والے ریاض احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتےہوئے کہا کہ ’رکشہ ڈرائیوروں کو اورنج لائن ٹرین سے کوئی مسئلہ نہیں جس نے اس سٹاپ سے اگلے تک سفر کرنا ہوتاہے وہ ٹکٹ لینے اور ٹرین میں سفر کرنے کی بجائے چنگچی رکشہ پر 20 روپے دے کر سفر کرلیتا ہے کئی لوگوں کو سٹاپ سے پہلے کہیں بھی پہنچنا ہوتا ہے وہ سٹیشن سے پیدل واپس آنے کی تکلیف نہیں اٹھاتے کیونکہ ٹرین تو سٹاپ پر ہی اتارتی ہے۔‘
ریاض کے بقول ’رکشے کا کرایہ بھی ٹرین سے دس روپے کم ہے دوسرا یہ کہ چلتے پھرتے رکشہ پر سوار ہونا قدرے آسان ہے۔ اگر ٹرین کے کرائے سٹاپ ٹو سٹاپ کم ہوتے بھی ہیں تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا کیونکہ پھر بھی رکشہ پر سفرکرنے والے اسی سے سفر کریں گے۔ لوگوں کو حکومت سہولت دیتی ہے تو ہمیں کیا اعتراض ہے۔ کام نہیں چلے گا تو کسی اور روٹ پر رکشہ چلا لیں گے۔‘
ایک مسافر شاہد علی نے کہا کہ ’اورنج لائن ٹرین ایک بہترین سفری سہولت ہے۔ بات کرائے کے کم یا زیادہ ہونے کی نہیں بس لوگوں کے موڈ کی بات ہے، گرمی زیادہ ہو تو اے سی کی وجہ سے ٹرین کو ترجیح دیتے ہیں اور اگر موسم اچھا ہو توچلتے پھرتے چنگچی پر بیٹھ جاتے ہیں۔ البتہ جنہوں نے روزانہ دفتر، سکول یا کالج جانا ہو وہ ٹرین کو ہی ترجیح دیتے ہیں کیونکہ رکشہ چھ سواریاں پوری کرنے کا انتظار کرتا ہے جبکہ ٹرین بروقت روانہ اور پہنچتی ہے۔‘