پاکستان میں ایکسپورٹر اور کاشت کار کمیٹی کے مطابق رواں سال غیر معمولی طور پر بلند درجہ حرارت اور نہری پانی کی قلت کے باعث آم اور دیگر فصلوں کی پیداوار میں تقریباً 50 فیصد کمی آئی ہے۔
کراچی ڈویژن کے ایڈوائزر مارکیٹ کمیٹی برائے پھل و سبزی افضل خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’موسم گرما میں آم سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا پھل ہے مگر رواں سال مارکیٹ میں آموں کی کمی ہے کیوں کہ اس کی پیداوار میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس سیزن میں آم کئی گنا مہنگے داموں مل رہے ہیں اور مارکیٹ سے جلدی ختم ہو جائیں گے۔‘
کراچی سپر ہائی وے پر واقع پھل اور سبزی منڈی جس کا شمار ایشیا کی چار بڑی منڈیوں میں ہوتا ہے، سے نہ صرف شہر کراچی بلکہ پورے صوبے، ملک اور گوادر کے راستے پڑوسی ملک ایران بھی پھل اور سبزیوں کی ترسیل کی جاتی ہے۔
منڈی میں موجود ایکسپورٹر محمد ندیم بتاتے ہیں کہ اس سیزن آموں کی بہت کم اقسام آئی ہیں۔ سندھ میں سب سے مشہور آم کی قسم سندھڑی ہے اور اس ہی کی فصل سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔
اس وقت بازار میں آموں کی یہ اقسام اور قیمتیں چل رہی ہیں:
ایڈوائزر مارکیٹ کمیٹی برائے پھل و سبزی افضل خان نے آم کی فصل میں کمی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’جنوری اور فروری کے مہینے میں آم کے پودے پر پھول کھلنے کا وقت ہوتا ہے، اس دوران جب پھول کی کلی بنتی ہے جو ایک چھوٹے دانے کے برابر ہوتی ہے۔ اس دفعہ شدید گرمی پڑی جس کے باعث وہ کلی جل گئی۔‘
’آم کے پھول کی کلی شدید گرمی برداشت نہیں کر پاتی۔ ایسا کافی بڑے پیمانے پر ہوا جس کے باعث اس سال آم کی فصل میں 50 فیصد کمی آئی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سندھ میں آم کے پودے کو فلاورنگ کے وقت بلوچستان سے کوئٹہ کی ہوا چاہیے ہوتی ہے، مگر جب آم تیار ہو جاتا ہے تو اسے سمندر کی ہوا چاہیے ہوتی ہے۔ ایک کلی سے پھول اور پھر پھل بننے کے لیے یہ تمام عوامل انتہائی ضروری ہیں۔ مگر اب موسمیاتی تبدیلی کے باعث یہ سب کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ اس سے نہ صرف پاکستان کی لوکل مارکیٹ پر گہرا اثر پڑا ہے بلکہ پاکستان کی برآمدات اور غیر ملکی زر مبادلہ پر بھی کافی منفی اثر پڑے گا۔‘
کراچی ڈویژن کے وائس چیئرمین مارکیٹ کمیٹی برائے پھل و سبزی آصف احمد نے بتایا کہ ’غیر معمولی گرمی اور نہری پانی کی کمی کے باعث پاکستان کی 50 فیصد سے زائد فیصل برباد ہوئی ہے۔ یہ نقصان صرف آم کی فصل نہیں بلکہ دیگر فصلوں کو بھی پہنچا ہے جس میں کیلا، گندم، گنا، چاول اور کپاس کی فصلیں بھی شامل ہیں۔‘
’جس طرح آم 100 فیصد مہنگا ہوگیا ہے اسی طرح چاول، گنا اور ہری سبزیوں کی قیمتوں میں کافی زیادہ اضافہ ہوگا۔ مہنگائی کا ایک طوفان آگیا ہے اور آگے مزید آئے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پچھلی بار ہم برآمدات کے لیے 2500 روپے فی من کے حساب سے آم لے رہے تھے مگر اب ہم 4000 روپے سے زائد کی قیمت پر آم لے رہے ہیں۔ پچھلے سال فریٹ کی قیمت بھی 1500 ڈالر تھی مگر اب وہ 3000 ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے۔ ڈالر اس وقت 160 روپے کا تھا مگر اب 200 سے زائد ہو گیا ہے۔ اس وجہ ہے ایکسپورٹر طبقے کے اخراجات دگنے ہو گئے ہیں۔‘
’ہمیں ایکسپورٹ کے لیے اب اخراجات مہنگے پڑ رہے ہیں، اور آم کی فصل بھی 50 فیصد کم ہے۔ دوسری جانب بھارت کی بھی آموں کی فصل چل رہی ہے تو ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس بار لگتا ہے کہ آم کی برآمدات 50 فیصد بھی ہوجائیں تو بہت بڑی بات ہے۔‘