بھارتی پولیس نے انسانی حقوق کی کارکن تیستا سیتلواد کو گرفتار کر لیا ہے۔ انہوں نے 2002 میں گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات میں نریندر مودی کے مبینہ کردار کی وجہ سے ان کے احتساب کے لیے مہم چلائی تھی۔ بھارت میں اس اقدام سے مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کے مزید خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
تیستا سیتلواد کو گجرات پولیس کے انسداد دہشت گردی سکواڈ (اے ٹی ایس) نے ہفتے کو ایک شکایت کی بنیاد پر گرفتار کیا تھا جس میں الزام لگایا گیا کہ انہوں نے فسادات کی متاثرہ ذکیہ جعفری کے جذبات کو’ ٹھیس پہنچائی‘۔
وہ سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کی اہلیہ ہیں، جنہیں 28 فروری 2002 کی صبح ایک مشتعل ہجوم نے قتل کر دیا تھا۔
60 سالہ تیستا سیتلواد کو اب کئی الزامات کا سامنا ہے۔ ان میں جھوٹی گواہی دینا، دھوکہ دہی اور جعلسازی کا الزام شامل ہے۔ ان کے ساتھ گجرات کے دو پولیس افسران کو حراست میں لیا گیا ہے۔ سنجیو بھٹ جو ایک اور معاملے میں بھی گرفتار ہیں اور آر بی سری کمار کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
ان تینوں پر الزام ہے کہ انہوں نے گجرات فسادات اور اس وقت نریندرمودی کی ریاستی حکومت کے کردار کی تحقیقات کرنے والی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کو گمراہ کرنے کی سازش کی تھی۔
یہ گرفتاری اس وقت ہوئی جب ایک روز قبل بھارت کی عدالت عالیہ نے فسادات کے معاملے میں نریندر مودی اور درجنوں دیگر سیاستدانوں کی بریت کو چیلنج کرنے والی ذکیہ جعفری کی درخواست مسترد کردی تھی۔
عدالت نے اپنے حکم تیستا سیتلواد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس تنازعے میں ’انتقامی پیروی‘ کر رہی ہیں۔
عدالتی حکم میں کہا گیا کہ:’تیستا سیتلواد کے سابقہ واقعات کو بھی اس کے ساتھ شمار کیا جانا چاہیے اور اس لیے بھی کہ وہ حالات کی حقیقی متاثرہ ذکیہ جعفری کے جذبات کا استحصال کرتے ہوئے اس (تنازع) کو اپنے چھپے ہوئے مقاصد کے لیے انتقامی استغاثہ کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔‘
عدالتی حکم جاری ہونے کے فوراً بعد وزیر اعظم کے اندرونی حلقوں اور حامیوں کی جانب سے سیتلواد کے خلاف ردعمل شروع ہو گیا تھا۔
بھارت کے موجودہ وزیر داخلہ اور نریندر مودی کے قریبی ساتھی امت شاہ نے سیتلواد پر یہ الزام عائد کیا کہ انہوں نے نریندر مودی کو پھنسانے کے لیے فسادات کے معاملے میں پولیس کو غلط معلومات دی ہیں۔
تیستا سیتلواد 2002 میں ہونے والے گجرات میں خون ریز فسادات کے بعد قائم کی گئی سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس (سی جے پی) کے نام سے ایک تنظیم چلاتی ہیں۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق ان فسادات میں ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے جن میں سے اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ کچھ غیر سرکاری اعداد و شمار ان اموات کو 2000 سے زیادہ قرار دیتے ہیں۔
گجرات میں ہونے والے قتل عام کو گودھرا میں ایک ٹرین پر حملے کے بعد ہندو انتہا پسندوں کی قیادت میں انتقام کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس میں58 ہندو یاتری ہلاک ہوئے تھے۔
اس کے بعد ہونے والے فسادات میں بچوں سمیت بہت سے متاثرین افراد کو ہلاک کیا گیا اور لاشوں کو ناقابل شناخت حد تک جلا دیا گیا۔ ان علاقوں میں وسیع پیمانے پر املاک کی تباہی کی اطلاع ملیں جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت رہتی تھی۔
نریندرمودی پر الزام تھا کہ وہ فسادات روکنے میں ناکام رہے اور انہوں نے جان بوجھ کر اپنی ریاست میں مسلمانوں کی سزا کے طور پر فسادات کو جاری رہنے دیا۔
ان الزامات کے نتیجے میں اس وقت ان کی اپنی پارٹی کے ارکان نے مذمت اور استعفے کا مطالبہ کیا اور ان کے امریکہ میں داخلے پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی۔ لیکن بار بار کی تحقیقات نے ثبوتوں کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے نریندر مودی اور ان کی ریاستی حکومت کو کسی بھی غلط کام کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔
جمعہ کو سپریم کورٹ نے اس کیس کو بند کرنے کا حکم برقرار رکھا ہے۔ امریکہ نے 2014 کے بھارتی انتخابات میں نریندر مودی کی کامیابی کے بعد ان پر ویزہ پابندی اس وقت ختم کر دی تھی جب باراک اوباما نے انہیں وائٹ ہاؤس کا دورہ کرنے کی دعوت دی تھی۔
تیستا سیتلواد کی گرفتاری کے بعد وکلا، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کی جانب سے غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے جنہوں نے اسے نریندر مودی کے ناقدین کو خاموش کرنے کی طرف ایک قدم قرار دیا ہے۔
وکیل کارونا نندی نے تیستا سیتلواد کی گرفتاری پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ:’سپریم کورٹ کا حقوق کے طلب گار انفرادی فرد کو نشانہ بنانا آئین کے برعکس ہے۔ یہ ان سب اقدام کے خلاف ہے جس کی وجہ سے گذشتہ پانچ دہائیوں میں ہماری عدالتوں کو تمام تر کمیوں کے باوجود عالمی سطح پر سراہا گیا۔ افسوسناک دن ہے۔‘
بھارت میں نفرت انگیز جرائم کے بہت سے متاثرین کی نمائندگی کرنے والے وکیل انس تنویر نے سوال کیا: ’آخری بار سپریم کورٹ کے ریمارکس کب ایف آئی آر (چارج شیٹ) کی بنیاد بنے تھے؟‘
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ تیستا سیتلواد کی گرفتاری ’انصاف کا مذاق‘ ہے۔
انس تنویر کا کہنا ہے کہ ’انہوں ( تیستا سیتلواد) نے( نریندر مودی پر الزام لگانے میں) مروجہ طریقہ کار پر عمل کیا تھا۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی تھیں جو ان کا حق تھا۔ آپ کسی چیز کے لیے عدالت سے رجوع کرنے پر کسی کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے۔‘
اس گرفتاری کو اقوام متحدہ اور ہیومن رائٹس واچ کے نمائندوں سمیت بین الاقوامی حقوق کی تنظیموں نے بھی جبر قرار دیا۔
ہیومن رائٹس واچ کی قائم مقام ایشیا ڈائریکٹر ایلین پیئرسن نے کہا:’ گجرات میں 2002 کے فسادات کی جواب دہی کے لیے مہم کی قیادت کرنے والی بھارتی کارکن تیستا سیتلواد کی حراست کے بارے میں جان کر بہت تشویش ہوئی۔ یہ انتہائی اہم ہے کہ حکومتیں جرمنی میں جی سیون سربراہ اجلاس میں بھارت کے وزیر اعظم نریندرمودی کے ساتھ اس معاملے کے بارے میں خدشات کا اظہار کریں۔‘
انسانی حقوق کے محافظوں کے بارے میں اقوام متحدہ کی خصوصی رپوٹر مریم لالور نے کہا:’ مجھے گجرات پولیس کے انسداد دہشت گردی سکواڈ کی جانب سے تیستا سیتلواد کی حراست کی اطلاعات پر گہری تشویش ہے۔ تیستا نفرت اور امتیازی سلوک کے خلاف ایک مضبوط آواز ہیں۔ انسانی حقوق کا دفاع جرم نہیں ہے۔ میں ان کی رہائی اور بھارتی ریاست کی جانب سے ظلم و ستم کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہوں۔‘
تیستا سیتلواد نے پہلی بار مارچ 2007 میں نریندر مودی پر الزام لگایا تھا جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ انہوں نے گجرات ہائی کورٹ میں دائر فوج داری درخواست میں ذکیہ جعفری کے ساتھ ایک شریک درخواست گزار کے طور پر اپنا نام لکھوایا تھا۔
ذکیہ جعفری نے فسادات میں مبینہ طور پر کردار پر مودی اور 61 دیگر سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور پولیس افسران کے خلاف قانونی شکایت کی تھی۔
تیستا سیتلواد کو کانگریس کی گذشتہ حکومت کے دوران بھارت کے چوتھے سب سے بڑے شہری ایوارڈ پدما شری سے نوازا گیا تھا۔ لیکن انہیں ناقدین کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے، ان پر فسادات کے متاثرین کو مخصوص مقاصد کے لیے سکھانے اور فنڈزمیں مبینہ بے ضابطگیوں کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔
© The Independent