قیام پاکستان کے بعد 26 جون 1970 کو پشتو زبان میں بننے والی پہلی فلم یوسف خان شیر بانو نمائش کے لیے پیش ہوئی۔
’یوسف خان شیربانو‘ پشتو زبان کی پہلی فلم تھی لیکن اس کی نمائش سے کوئی 29 برس پہلے 1941 میں بمبئی میں ایک اور پشتو فلم ’لیلیٰ مجنوں‘ نمائش پذیر ہو چکی تھی۔ لیلیٰ مجنوں کے فلم ساز، ہدایت کار، کہانی نگار اور شاعر بابا امیر حمزہ شنواری تھے جبکہ اس فلم کی موسیقی رفیق غزنوی نے ترتیب دی تھی۔
وہی اس فلم کے ہیرو تھے جبکہ ہیروئن کا کردار حبیب جان کابلی نے نبھایا تھا۔
1963 میں پشتو میں ایک دستاویزی فلم ’پلوشہ‘ بنائی گئی جسے پشتو زبان کے معروف شاعر اور ادیب سید رسول رسا نے حکومت سرحد کے تعاون سے بنایا تھا۔ اس فلم میں چونکہ اس وقت کے فوجی حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت کے کارناموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا اس لیے اسے حکومت کی جانب سے بہت زیادہ پذیرائی ملی۔ اس فلم میں مرکزی کردار گل محمد خان نے ادا کیا تھا جبکہ ہیروئن پشتو اور اردو زبان کی معروف افسانہ نگار زیتون بانو تھیں۔
قیام پاکستان کے بعد جس پہلی پشتو فلم کی فلم بندی کا آغاز ہوا اس کا نام ’یوسف او شیر بانو‘ تھا۔ اس فلم کی فلم بندی کا آغاز 1968 میں لاہور کے ایورنیو سٹوڈیو میں ہوا تھا۔ اس فلم کا پہلا کلیپ اداکار رنگیلا نے دیا تھا اور اسے چار دوستوں چھاتا خان، رب نواز خان، سید امیر سرحدی اور گلزار نے مل کر بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فلم کے ہیرو رب نواز خان، ہیروئن غزالہ اور ولن امان تھے۔
ادھر اس فلم کا آغاز ہوا ادھر کراچی سے خبر ملی کہ فلم ساز نذیر حسین، مدن علی مدن اور شفیع قاضی نے مل کر فلم ’یوسف خان شیر بانو‘ بنانے کا آغاز کر دیا ہے جس کی ہدایت کاری کے فرائض عزیز تبسم کو سونپے گئے ہیں۔ دونوں فلموں کی کہانی یکساں تھی اس لیے لاہور اور کراچی کے فلم سازوں کے مابین کشمکش شروع ہو گئی۔ پہلے اخبارات میں بیان بازی ہوئی اور پھر بات عدالت تک جاپہنچی، جس نے کراچی نے فلم ساز کے حق میں فیصلہ دے دیا اور لاہور کی فلم کی عکس بندی روک دی گئی۔
یوسف خان شیربانو کے مکالمہ نگار عزیز تبسم، مصنف اور نغمہ نگار علی حیدر جوشی، موسیقار لال محمد اقبال اور عکاس مدن علی مدن تھے۔ فلم کے نغمات ہدایت اللہ، ریحانہ یاسمین اور نگہت اکبر نے گائے تھے۔ فلم میں مرکزی کردار بدرمنیر اور یاسمین خان نے ادا کیے تھے جب کے دیگر اداکاروں میں ترنم، ماہ پارہ، ساقی، شہباز درانی، سیٹھی، شیریں تاج، نعمت سرحدی، راجہ مثل خان اور نگینہ خانم شامل تھے۔
’یوسف خان شیر بانو‘ کی تاریخ نمائش میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ پشاور سے شائع ہونے والی حاجی محمد اسلم کی مرتب کردہ پشتو فلموں کی تاریخ ’پښتو فلمونہ‘ کے مطابق یہ فلم پانچ دسمبر 1970 کو عیدالفطر کے موقعے پر نمائش پذیر ہوئی تھی مگر اس زمانے کے اخبارات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کراچی کے سینیما گھروں میں یہ فلم 26 جون 1970 کو ریلیز ہو چکی تھی۔
کراچی میں اس فلم کا مین سینیما گوڈین تھا جبکہ جن دیگر سینیماؤں میں یہ فلم نمائش پذیر ہوئی ان میں سپر، ریگل، سوسائٹی، امپیریل اور مہتاب کے نام شامل ہیں۔ یہ فلم اسی دن نشاط (حیدرآباد) اور عصمت (کوئٹہ) میں بھی ریلیز کی گئی۔ یوسف خان شیربانو نے کراچی میں سلور جوبلی اور پشاور میں گولڈن جوبلی کرنے کا اعزاز حاصل کیا اور اس کی کامیابی سے پاکستان میں پشتو فلموں کا دروازہ کھل گیا۔
یوسف خان شیربانو کی نمائش کے کچھ عرصے بعد لاہور میں بھی پشتو فلمیں بننے کا آغاز ہو گیا۔ لاہور میں بننے والی پہلی پشتو فلم ’درۂ خیبر‘ تھی۔ اس کے ہدایت کار ممتاز علی خان تھے جس میں مرکزی کردار آصف خان اور ثریا خان نے ادا کیے تھے جبکہ دیگر اداکاروں میں رب نواز خان، مہ جبین اور عمر دراز شامل تھے۔
1971 سے 1980 کے دوران پشتو زبان میں ایک کے بعد ایک معیاری اور خوب صورت فلمیں تخلیق کی گئیں جن میں درہ خیبر، بہادر خان، آدم خان درخانی، عجب خان آفریدی، جوارگر، مہلمہ، علاقہ غیر، ٹوپک زما قانون، اوربل، دہقان، ارمان، باز او شہباز، پختون طورہ، دیدن، زمابدل زرتاجا، رحم داد خان اور کئی دیگر فلمیں شامل ہیں۔ اس دور کی فلموں کو بےحد پسند کیا گیا اور یہ بلیک اینڈ وہائٹ ہونے کے باوجود کئی کئی ہفتے زیر نمائش رہیں۔ ان فلموں نے نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ بلوچستان اور کراچی میں بھی بہت اچھا بزنس کیا۔
یوسف خان شیربانو کے ہدایت کار عزیز تبسم نے اپنے کیریئر کا آغاز مشہور ہدایت کار پرویز ملک کے اسسٹنٹ کے طور پر کیا تھا۔ یوسف خان شیربانو کامیاب ہوئی تو انہوں نے اپنے آپ کو پشتو فلموں کے لیے مخصوص کر لیا۔ انہوں نے 20 سال سے زیادہ پشتو سینیما کی خدمت کی اور اسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
عزیز تبسم کا اصل نام عبدالعزیز خان تھا۔ انہوں نے مجموعی طور پر 28 فلمیں بنائیں جن میں 23 پشتو میں، چار اردو میں اور ایک (جنگجو گوریلے) اردو اور پنجابی کی ڈبل ورژن فلم تھی۔ ان کی آخری پشتو فلم خطرناک تھی جو 1992 میں نمائش پذیر ہوئی۔ 1993 میں وہ امریکہ منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے انگریزی زبان میں کئی اینیمیٹڈ فلموں کی ہدایات دیں۔
یوسف خان شیربانو سے بدر منیر جیسے ہیرو اور یاسمین جیسی ہیروئن سامنے آئیں۔ بدر منیر1943 میں شاہ گرام مدین، سوات میں پیدا ہوئے تھے۔ 1960 کی دہائی میں وہ کراچی آ گئے اور یہاں محنت مزدوری کر کے گزر بسر کرنے لگے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ وحید مراد کے دفتر میں چائے والے کا کام کرتے تھے پھر انہوں نے فلمی سٹوڈیوز میں دیگر چھوٹے موٹے کام کرنا شروع کیے اور اسی دوران کئی فلموں میں ایکسٹرا کا کردار بھی ادا کیا۔ 1970 میں انہیں پشتو زبان کی پہلی فلم یوسف خان شیربانو میں ہیرو کا کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ اس فلم نے بدر منیر کو راتوں رات سٹار بنا دیا اور پھر انہوں نے پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھا۔
بدر منیر نے مجموعی طور پر 551 فلموں میں کام کیا جن میں 418 پشتو، 88 اردو، 33 پنجابی، 11 سندھی اور ایک فلم ہندکو میں بنائی گئی تھی۔ بدر منیر نے 160 فلموں میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ان کی مشہور فلموں میں دلہن ایک رات کی، جہاں برف گرتی ہے، اوربل، دو چور، ٹوپک زما قانون، دل والے، دیدن، جان کی بازی، مجاہد، لیونئی، ملتان خان اور لیوانئے شامل ہیں۔ انہوں نے ایک فلم عجب خان کی ہدایت بھی دیں۔ 14 اگست 2008 کو حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔
پشتو زبان کی پہلی فلم یوسف خان شیربانو کی ہیروئن ہونے کا اعزاز یاسمین خان کو حاصل تھا۔ انہوں نے اپنے فلمی کیریئر میں 150 سے زیادہ پشتو، اردو اور پنجابی فلموں میں کام کیا۔ ان کی آخری فلم ’دلربا ڈاکو‘ تھی جو 31 مارچ 1995 کو نمائش پذیر ہوئی۔
یاسمین خان کی نو فلموں نے بہترین پشتو فلم ہونے کا اعزاز حاصل کیا جو ایک ریکارڈ ہے۔ 15 اپریل 1999 کو وہ نامعلوم قاتل کی گولیوں کا نشانہ بن گئیں۔ یاسمین خان اپنی شادیوں کی وجہ سے بھی مشہور ہوئیں۔ ان کی پہلی شادی اداکار ساقی سے، دوسری خرم باری سے اور تیسری عارف اللہ سے ہوئی تھی۔
بدر منیر اور یاسمین خان کے علاوہ پشتو فلموں تاریخ میں جن فن کاروں نے نمایاں کردار ادا کیا، ان میں آصف خان، نعمت سرحدی، جمیل بابر، عنایت خان، بیدار بخش، شاہدخان، ساقی، عجب گل، ہمایوں قریشی، راجہ مصر خان، امان، عمر دراز خلیل، طارق شاہ، ثریا خان، نگینہ خانم، مسرت شاہین، سنینا، شہناز، سنیتا خان اور صبا شاہین کے نام سرفہرست ہیں جبکہ پشتو فلموں کے معروف ہدایت کاروں میں ممتاز علی خان، عنایت اللہ خان، مقصود خان، صنوبر خان، ناصر رضا خان، نسیم خان اور سعید علی خان کے نام شامل ہیں۔
اب تک پشتو زبان میں آٹھ سو سے زیادہ فلمیں بن چکی ہیں۔ اردو اور پنجابی کے بعد یہ پاکستان کی تیسری بڑی فلمی صنعت ہے اور اس کا یہ سفر ابھی جاری ہے۔