صوبہ پنجاب کے شہر میانوالی کے پیر پہائی نامی گاؤں کے قریب کالاباغ ڈیم کے منصوبے پر کام 1950 میں شروع کیا گیا تھا مگر حکومتِ پاکستان کا بجلی پیدا کرنے کا یہ ’سب سے بڑا منصوبہ‘ تاحال مکمل نہ ہو سکا۔
جب ہم دریائے سندھ کے کنارے اس مقام پر پہنچے جہاں دریائے سواں اور دریائے کابل آپس میں مل رہے ہیں تو کالا باغ ڈیم سائٹ پر ویرانی کا یہ عالم تھا کہ نگرانی کرنے والے چوکیدار بھی نظر نہیں آئے۔
ڈیم کی کالونی کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی تھی اور کالونی میں بنائے گئے کوارٹرز کے شیشے ٹوٹ کر زمین پر بکھرے تھے۔ قیمتی مشینری، کرین اور دیگر ساز و سامان کھلے آسمان تلے پڑا تھا۔
کئی سال قبل دفاتر میں پڑی فائلیں درازوں میں اپنی بربادی کا رونا رو رہی ہیں، دفاتر کی چھتیں غائب تھیں اور یوں لگ رہا تھا جیسے یہاں کسی نے بمباری کی ہو۔
کالاباغ ڈیم سائٹ پر اس وقت چار ملازمین کام کر رہے ہیں جو صرف زنگ آلود مشینری اور کھنڈرات کی طرح نظر آنے والے رہائشی کوارٹرز کی نگرانی کرتے ہیں۔
پیر پہائی کے رہائشی سید زاہد عباس اس بارے میں کہتے ہیں کہ گذشتہ تقریباً 40 سال سے ’کالا باغ ڈیم کے نام پر سیاست کی جا رہی ہے۔‘
سید زاہد عباس نے کہا کہ اگر اس پر کام کیا جائے تو یہ پاکستان کے لیے بجلی اور زراعت کے حوالے سے انتہائی فائدہ مند ہے۔
انہوں نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ ’سب سے پہلے کالاباغ ڈیم بنایا جائے یا اس کا کام فوری طور پر شروع کیا جائے۔‘
’اس سے چاروں صوبوں کو بھی فائدہ ہے اور بے تحاشا سستی بجلی بھی پیدا ہو گی۔ زراعت کو بھی فائدہ ہو گا۔ نہیں تو کم از کم وہ جو کالونیاں بنی ہیں ان کو کسی اور استعمال میں لے آئیں، اور جو انفراسٹرکچر اور مشینری تباہ ہو رہی ہے اس کو تباہ ہونے سے بچایا جائے۔‘
اب تک صرف فائلوں کی ہی نذر رہنے والے اس منصوبے کی تعمیر کی لاگت کا تخمینہ پانچ ارب ڈالر لگایا گیا تھا جو اب بڑھ کر 15 ارب ڈالر سے بھی زائد ہو چکا ہے۔
حکام بھی اس ڈیم کے فوائد تو بیان کرتے ہیں مگر اس کے نقصانات سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں لیکن پاکستان کے دیگر تین صوبوں کو یہ منصوبہ قبول نہیں اور وہ ان فوائد کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
صوبہ سندھ، صوبہ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومتیں اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف کئی متفقہ قراردادیں پاس کر چکی ہیں۔
بلوچستان کا براہ راست اس منصوبے سے کوئی تعلق نہیں مگر صوبے کا موقف ہے کہ چونکہ وہ اپنا پانی صوبہ سندھ سے لیتے ہیں، اس لیے وہ سندھ کے موقف کی تائید کریں گے۔
کالا باغ ڈیم پر حقیقی معنوں میں کام جنرل ضیا الحق کے دور میں شروع ہوا۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں خصوصی طور پر ڈیموں کے ماہر ڈاکٹر کنیڈی کمیٹی بنائی گئی جس نے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے رپورٹ تیار کی۔
1983 میں ڈاکٹر کنیڈی کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی جس کے مطابق اس ڈیم کی اونچائی 925 فٹ ہو گی، 6.1 ملین ایکڑ فٹ پانی سٹور کیا جا سکے گا اور اس کی تعمیر میں زیادہ سے زیادہ پانچ سال اور کم سے کم تین سال کا عرصہ لگنا تھا۔
رپورٹ کے مطابق یہ پورے ملک کے 50 لاکھ ایکڑ بنجر رقبے کو سیراب کرے گا۔ آٹھ بلین ڈالر اس کی تعمیر پر خرچ ہوں گے اور پانچ ہزار میگا واٹ تک بجلی کی پیداوار حاصل کی جاسکے گی۔
جنرل ضیا الحق کے حکم پر کالا باغ کی تعمیر کے لیے دفاتر تعمیر کیے گئے، سڑکیں بنائی گئیں اور مشینری منگوائی گئی۔ خیبر پختونخوا نے اعتراض کیا کہ کالا باغ ڈیم کے موجودہ ڈیزائن سے نوشہرہ شہر ڈوب جائے گا، اس عذر کو دور کرنے کے لیے ڈیزائن میں تبدیلی لائی گئی اور ڈیم کی اونچائی 925 سے 915 فٹ کر دی گئی۔