’ان عورتوں میں بے حیائی کا عنصر شرمناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے‘، میرے ایک صالح دوست نے انتہائی فکرمند لہجے میں مجھے بتایا۔
تمھیں ہر وقت ’عورتوں میں بڑھتی ہوئی بے حیائی‘ کیوں پریشان کیے رکھتی ہے؟‘ میں نے جواباً پوچھا۔
’اس لیے کہ عورت کا بے پردہ ہو کر یوں سرِعام پھرنا دینی احکامات ہی نہیں مشرقی روایات کے بھی خلاف ہے،‘ گرجدار آواز میں جواب آیا۔
’یہ بات بالکل درست ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں تو خواتین اور لڑکیاں بہت مناسب اور باوقار لباس کا انتخاب کرتی ہیں۔ ان کے پہناوے میں تمھیں بے حیائی کا عنصر کہاں سے نظر آجاتا ہے،‘ میں نے دوسرا سوال کیا۔
’تمھیں لگتا ہے کہ آج کل کی لڑکیوں کا لباس مناسب اور باوقار ہوتا ہے؟‘ میرے دوست نے میری جانب بے یقینی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’ہاں بالکل!‘ میں نے جواب دیا۔
’اچھا تو پھر وہ جو دن رات مارکیٹوں میں بن سنور کر انتہائی تنگ لباس پہنے گھومتی نظر آتی ہیں وہ لڑکیاں مغربی ممالک سے آئی ہوتی ہیں؟ توبہ توبہ جسم کا ایک ایک عضو نمایاں ہو رہا ہوتا ہے۔ دوپٹہ تو دور کی بات، کپڑے اتنے باریک ہوتے ہیں کہ سب کچھ نظر آتا ہے دیکھنے والوں کو۔‘
’دیکھنے والوں کو نظر آتا ہے نا۔ تو تم نہ دیکھا کرو،‘ میں نے بے پروائی کہا۔
’کیا مطلب؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ انسان کی نظر پڑ ہی جاتی ہے،‘ دوست نے کہا۔
’تو نظر جھکائی بھی تو جا سکتی ہے۔‘ میں نے دلیل دی۔
’عورتوں کو سرِعام اپنی زینت کے اظہار سے منع فرمایا گیا ہے۔‘ دوست نے جوابی دلیل دی۔
’جہاں تک میری معلومات ہیں، مردوں کو بھی نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے،‘ میں نے بحث کو آگے بڑھایا۔
’اگر دینی یا مشرقی اقدار خواتین سے باوقار لباس کا تقاضا کرتی ہیں تو وہی اقدار ہم مردوں کو بھی تو نگاہیں پست کرنے کا حکم دیتی ہیں۔ بلکہ ایسے ہی موقع پر تو نظریں نیچی کرنے کا تقاضا بنتا ہے جہاں بے پردگی ہو۔ لیکن ہم مرد تو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے بھی جاتے ہیں اور معاشرے میں ’تیزی سے پھیلتی بے حیائی‘ کا رونا بھی روتے جاتے ہیں۔‘ میں نے اپنا موقف بیان کیا۔
’میں اس وقت بحث کے موڈ میں نہیں ہوں اور ویسے بھی مجھے شک ہونے لگا ہے کہ تم ذہنی طور پر اس مغرب زدہ لبرل طبقے سے متاثر ہوچکے ہو جو عورت کو آزادی کے نام پر بازار کی زینت بنانا اور اس کی بے لباسی سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے۔‘ میرے دوست نے قطعی انداز میں فیصلہ سنایا۔
’اچھا مجھے ایک بات بتاؤ۔‘ میں نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا: ’ہماری تمام روایات کا اطلاق صرف خواتین پر ہی ہوتا ہے یا مشرق نے کچھ پابندیاں مردوں پر بھی عائد کی ہیں؟‘
’ارے واہ، یہ کیا بات ہوئی؟ مشرقی مرد تو تنہا سارے خاندان کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ روزی روٹی کماتا ہے۔ عورت پر تو روزگار جیسی کوئی ذمہ داری ڈالی ہی نہیں گئی۔ جنس زدہ مغربی معاشروں میں دیکھو، وہاں کس طرح عورت کا استحصال ہوتا ہے۔ کس طرح وہاں کی عورت روزگار کے لیے دھکے کھاتی ہے اور بچے بھی پالتی ہے۔‘ میرے دوست نے ’جنس زدہ‘ پر زور دیتے ہوئے جواب دیا۔
’یہ درست ہے کہ مغربی عورت گھر کے ساتھ باہر کی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی اٹھاتی ہے لیکن مشرق میں تو صرف ’اقدار‘ کا بوجھ ہی عورت کی زندگی اذیت ناک بنانے کے لیے کافی ہے۔‘ میں نے طنز کیا۔
میرے دوست نے طنز کے جواب میں کچھ کہنے کی بجائے مجھے صرف گھورنے پر اکتفا کیا۔
’ویسے یہ ’جنس زدہ‘ معاشرہ کون سا ہوتا ہے؟‘ میں نے اس کے استعمال کردہ دو الفاظ کو پکڑا۔
’تمھیں نہیں پتہ کہ جنس زدہ معاشرہ کون سا ہوتا ہے؟‘ دوست نے چبھتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
’میں تمھاری رائے جاننا چاہتا ہوں۔‘ میں نے اصرار کیا۔
’جس معاشرے میں بسنے والوں کی سوچ اور حرکات پر جنسی ہیجان غالب ہو، اسے جنس زدہ معاشرہ کہا جا سکتا ہے۔‘ میرے دوست نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔
’تمہاری بیان کی گئی تعریف پر میرے خیال میں تو مغرب کی بجائے ہمارا اپنا معاشرہ پورا اترتا ہے،‘ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
’تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘ اس نے تیزی سے پوچھا۔
’بالکل سامنے کی بات ہے۔ ہمارے یہاں عورتوں اور معصوم بچوں سے لے کر بے زبان جانوروں تک خدا کی وہ کون سی مخلوق ہے جسے جنسی زیادتی کا نشانہ نہیں بنایا جاتا؟ وطن عزیز کے بازاروں، گلیوں میں چلتے پھرتے یا پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہر جگہ، ہر عمر اور ہر طرح کے لباس میں ملبوس عورت کو فحش حرکات اور جملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور معاشرہ جنس زدہ مغرب کا ہے؟‘ میں نے قدرے سخت لہجے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
’میں تو خود کہتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں بے حیائی۔۔۔۔‘ دوست نے کہنا چاہا۔
’نہیں تم یہ سب نہیں کہتے۔ تم اس معاشرے کے اصل بدنما کرداروں سے نظریں چرا کر ہر اخلاقی بے راہ روی کا ذمہ دار عورت کو قرار دیتے ہو، اخلاقی اعتبار سے خوفناک ترین جرائم کو بھلا کر بے حیائی، بے حیائی کا بے معنی راگ الاپتے ہو اور یہ سب کچھ کرتے ہوئے بطور مرد خود کو تمام اخلاقی ضابطوں سے ماورا بھی تصور کرتے ہو۔‘ میں نے اس کی بات بیچ میں ہی کاٹتے ہوئے تقریباً چلا کہا۔
’تم کچھ بھی کہو۔ مغربی اقدار کی اندھا دھند تقلید ہی ان اخلاقی جرائم اور بڑھتی ہوئی بے راہ روی کا سبب ہیں۔‘ وہ اپنی بات پر مصر تھا۔
’تم نے ساحر لدھیانوی کی نظم ’چکلے‘ پڑھی ہے؟‘ میں نے سوال کیا۔
’میں ایسی شاعری میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ اس کا تو عنوان ہی انتہائی بیہودہ ہے، پوری نظم کا کیا حال ہو گا،‘ میرے دوست نے بیزاری سے کہا۔
پہلے تو میں اس کا جواب سن کر ہکا بکا رہ گیا لیکن پھر یہ سوچ کر بحث کا اختتام کر دیا کہ ریاست کی نگرانی میں مخصوص نظریات، محدود مطالعے اور برتری کے زعم میں لتھڑے ہوئے خطبوں پر پلنے والی نسلوں سے ایسے ہی دلائل کی توقع کی جا سکتی ہے۔