برطانیہ میں تاریخی پیشرفت: رحم کے ٹرانسپلانٹ کے بعد پہلی بچی کی پیدائش

یہ کامیاب پیدائش تولیدی طب میں ایک بڑی پیشرفت کی علامت ہے جو ایسی ہزاروں خواتین کی زندگیوں کو بدل سکتی ہے جو رحم کے بغیر پیدا ہوئی ہیں۔

گریس ڈیوسن، جو ایک ڈائٹیشن ہیں، اور ان کے 37 سالہ شوہر اینگس جو فنانس کے شعبے میں کام کرتے ہیں، اپنی بیٹی کی پیدائش پر بے حد خوش ہیں (وومب ٹرانسپلانٹ یو کے/ ویب سائٹ)

سائنس میں ایک تاریخی پیشرفت اس وقت سامنے آئی جب برطانیہ میں ایک خاتون نے رحم کے ٹرانسپلانٹ کے بعد ایک بچی کو جنم دیا۔

36  سالہ گریس ڈیوسن نے اپنی بڑی بہن ایمی سے رحم حاصل کرنے کے بعد بچی کو جنم دیا جس کا نام ایمی ازابیل ان کی خالہ اور اس سرجن کی اعزاز میں رکھا گیا ہے جنہوں نے بچہ دانی کے ٹرانسپلانٹ کے طریقہ کار کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

یہ برطانیہ میں اس طریقہ کار سے پیدا ہونے والی پہلی بچی ہے۔

یہ کامیاب پیدائش تولیدی طب میں ایک بڑی پیشرفت کی علامت ہے جو ایسی ہزاروں خواتین کی زندگیوں کو بدل سکتی ہے جو رحم کے بغیر پیدا ہوئی ہیں۔

گریس ڈیوسن، جو ایک ڈائٹیشن ہیں، اور ان کے 37 سالہ شوہر اینگس جو فنانس کے شعبے میں کام کرتے ہیں، اپنی بیٹی کی پیدائش پر بے حد خوش ہیں۔

جوڑے کا یہ سفر ظاہر کرتا ہے کہ بچہ پیدا کرنے میں مسائل کا سامنا کرنے والی خواتین کے لیے وومب ٹرانسپلانٹ ایک شاندار اور موثر حل ثابت ہو سکتا ہے۔

بچی ایمی 27 فروری کو لندن کے کوئین چارلیٹ اینڈ چیلسی ہسپتال میں سی سیکشن کے ذریعے پیدا ہوئیں۔ گریس ڈیوسن نے کہا کہ جب انہوں نے پہلی بار اپنی بیٹی کو گود میں اٹھایا تو وہ جذبات سے مغلوب ہو گئیں۔

ان کے بقول: ’ہمارے لیے یہ سب سے بڑا تحفہ ہے جس کی ہم خواہش کر سکتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ وہ حقیقت میں ہماری بچی ہے، ہم جانتے تھے کہ وہ ہماری بچی ہے، لیکن پھر بھی یہ ایک خواب کی طرح لگ رہا تھا۔ ہمارا خاندان ہمارے لیے بہت خوش ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ہماری زندگی مکمل ہو گئی ہے جو پہلے شاید ایسی نہیں تھی۔‘

گریس ڈیوسن Mayer-Rokitansky-Kuster-Hauser نامی غیر معمولی مرض کے ساتھ پیدا ہوئی تھیں جو تقریباً ہر پانچ ہزار خواتین میں سے ایک کو متاثر کرتی ہے۔

اس حالت میں خواتین کا رحم یا تو پوری طرح نہیں بنا ہوتا یا سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا۔ تاہم گریس کی اووریز صحیح حالت میں تھیں اور ان کی فعالیت برقرار تھی۔ انڈے پیدا کرنے اور خواتین کے ہارمونز کی پیداوار جاری رکھنے کی وجہ سے وہ فرٹیلٹی ٹریٹمنٹ کے ذریعے حمل ٹھہرا سکتی تھیں۔

رحم کے ٹرانسپلانٹ سے پہلے گریس ڈیوسن اور ان کے شوہر نے فرٹیلٹی ٹریٹمنٹ کروایا تھا تاکہ سات ایمبریوز (انڈے اور سپرم کا ملاپ) تیار کیے جا سکیں جنہیں لندن کے مرکزی علاقے میں ان وٹرو فرٹیلائزیشن (آئی وی ایف) کے لیے منجمد کر لیا گیا تھا۔

اس کے بعد گریس ڈیوڈسن نے فروری 2023 میں اپنی بہن 42 سالہ ایمی، جو پرائمری سکول کی سابقہ ٹیچر اور 10 اور چھ سال کی دو بچیوں کی ماں ہیں، سے رحم حاصل کرنے کے لیے سرجری کروائی تھی۔

کئی مہینوں بعد، ایک محفوظ ایمبریو آئی وی ایف کے ذریعے گریس ڈیوسن میں منتقل کیا گیا۔

ایمی، جس کا پیدائش کے وقت وزن 4.5 پاؤنڈ تھا، نے چند ہفتے پہلے ہی منصوبہ بندی کے مطابق 90 منٹ کے سی سیکشن کے ذریعے جنم لیا تاکہ ان کی ہسپتال میں ایک محفوظ پیدائش کو یقینی بنایا جا سکے۔

گریس ڈیوسن اور ان کی بچی تقریباً ایک ہفتہ ہسپتال میں رہیں تاکہ دودھ پلانے کا عمل شروع کیا جا سکے۔ گریس ڈیوسن نے کہا: ’پہلے دو ہفتے مشکل تھے کیونکہ وہ بہت سوتی تھی اور ہم اس کو خوراک دینے کے لیے جاگتے رہتے تھے مگر اب وہ بہتر خوراک لے رہی ہے اور زیادہ وقت جاگتی رہتی ہے۔‘

ان کے شوہر اینگس نے کہا کہ بیٹی کی پیدائش کا لمحہ بہت جذباتی تھا۔ ’وہ روتی ہوئی نکلی اور ہمیں تھوڑا خدشہ تھا کہ کہیں اسے نیونٹل وارڈ (قبل ازوقت پیدائش والے وارڈ) میں نہ شفٹ کر دیا جائے، مگر وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہی اور ہم اس کے لیے بے حد شکر گزار ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے اس لمحے کا اتنی دیر تک انتظار کیا تھا کہ یہ واقعہ حقیقت میں کسی خواب کی طرح محسوس ہوا۔‘

’یہ اتنے طویل انتظار کے بعد ہوا تھا۔ ہم شادی کے بعد سے ہی کسی نہ کسی طرح خاندان بڑھانے کا ارادہ رکھتے تھے اور ہم اس سفر پر کافی دیر سے گامزن تھے۔ اتنے لمبے انتظار کے بعد، یہ سمجھنا عجیب سا لگتا ہے کہ یہ وہ لمحہ ہے جب آپ اپنی بیٹی سے ملنے والے ہیں۔

’کمرہ ان لوگوں سے بھرا ہوا تھا جنہوں نے ہمیں ایمی کے پیدا ہونے تک کے اس سفر میں مدد دی تھی۔ ہم نے تقریباً 10 سال تک اپنے جذبات کو دبائے رکھا تھا اور آپ نہیں جانتے کہ یہ جذبات اب کیسے ظاہر ہوں گے اور حقیقت میں یہ ایک شدت سے روتے ہوئے نکلے۔ کمرہ محبت اور خوشی سے بھرا ہوا تھا اور ان تمام لوگوں سے، جن کا ایمی سے طبی اور سائنسی وجوہات کی بنا پر گہرا تعلق تھا لیکن ان سب کے درمیان خاندان اور ایمی سے محبت کے جذبات کی سرحدیں دھندلی ہو چکی تھیں، ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کمرہ محبت سے بھرا ہو۔

’جب ہم نے اسے دیکھا تو وہ لمحہ ناقابل یقین تھا اور ہم دونوں جذباتی طور پر رو پڑے، اسے بیان کرنا مشکل ہے، یہ بس خوشی کا لمحہ تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گریس ڈیوسن نے کہا کہ ان کی ہمیشہ یہ امید تھی کہ رحم کی منتقلی کی سرجری کامیاب ہوگی اور جب بیٹی کی پیدائش ہوئی تو اس کی حقیقت کا احساس ہوا۔

’یہ ایک طویل سفر تھا، تقریباً آٹھ سال کا اور ہم سوچتے تھے کہ کہیں یہ منصوبہ مختلف وجوہات کی بنا پر ناکام نہ ہو جائے لیکن جب رحم ٹرانسپلانٹ ہوئی، تو ہمیں امید تھی کہ سب کچھ ٹھیک ہو گا۔‘

گریس ڈیوسن نے کہا: ’رحم کے ٹرانسپلانٹ کے دوران بہت ساری مشکلات آئیں اور یہ کوشش سرجری کے صرف دو ہفتے میں ناکام ہو سکتی تھی اس لیے اس تک پہنچنا ایک حیرت انگیز لمحہ تھا۔ جب پہلی بار میری ماہواری آئی تو میں نے سمجھا کہ سب کچھ صحیح کام کر رہا ہے اور یہ سب ہماری محنت کا نتیجہ تھا۔‘

’ہمیں مشکل وقتوں سے گزرنے میں جو چیز مددگار ثابت ہوئی وہ یہ سوچ تھی کہ یہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ میں بہت شکرگزار ہوں کیونکہ ان کی زندگی میں اس تجربے نے انہیں بہت کچھ دیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ وہ اگلے بچے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

گریس کی بہن پیورڈی، جو اس وقت سکاٹ لینڈ میں رہتی ہیں، پیدائش کے وقت وہاں نہیں تھیں لیکن وہ ہمیشہ فون پر رابطے میں رہیں۔

انہوں نے کہا: ’گریس اور اینگس کو والدین بنتے ہوئے دیکھنا ایک بہت خوشی کا لمحہ تھا کیوں کہ انہوں نے ہر لمحہ اس کا انتظار کیا تھا۔‘

پیورڈی نے کہا کہ جب زندہ ڈونر کے ذریعے رحم کے ٹرانسپلانٹ کا پروگرام ممکن ہوا تو انہوں نے اپنی چھوٹی بہن کو اپنا رحم عطیہ کرنے کے بارے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔

انہوں نے خبر رساں ادارے پی اے کو بتایا: ’یہ فطری تھا۔‘

چونکہ وہ گریس کے ساتھ کسی مرنے والے ڈونر کے منصوبے پر عمل کر رہے تھے اس لیے وہ اس سفر میں اس کے ساتھ شریک تھے اور اس کی ہر مرحلے پر حمایت کر رہے تھے۔

جب گریس نے بتایا کہ یہ موقع موجود ہے، تو فوراً میں، میری بڑی بہن لورا اور ہماری والدہ نے فیصلہ کیا کہ ہم سب یہ کام کریں گے۔ اس بارے میں کوئی شک یا تردد نہیں تھا۔

گریس کو 19 سال کی عمر میں معلوم ہوا کہ ان کے جسم میں رحم نہیں ہے اور اس کے ساتھ ہی انہیں رحم کے ٹراسپلانٹ کے بارے میں بھی پتہ چلا۔

وہ بتاتی ہیں کہ یہ تحقیق کے ابتدائی مراحل میں تھا لیکن ان کے ڈاکٹر نے کہا کہ یہ علاج شاید ان کی زندگی میں دستیاب ہو جائے گا۔ شادی سے پہلے انہوں نے اس بارے میں گوگل کیا اور معلوم کیا کہ ایک تحقیقاتی ٹیم موجود ہے اور اس کے بعد انہوں نے ان سے رابطہ کیا۔

گریس نے کہا کہ جب وہ اس مرض کی تشخیص سے گزر رہی تھیں تو اس وقت یہ جاننا مشکل تھا کہ یہ بیماری ان کی زندگی پر کس طرح اثرانداز ہوگی۔ انہیں بچہ پیدا کرنے کی شدید خواہش تھی اور ان کے لیے یہ بہت افسوسناک تھا۔

انہوں نے کہا کہ بعض حالات میں یہ تکلیف دہ تھا جیسے کہ جب وہ کسی ماں کو پریم کے ساتھ دیکھتی تھیں، یہ چھوٹے چھوٹے لمحے ان کے لیے مشکل بن جاتے تھے اور اچانک ان پر غم طاری ہو جاتا تھا۔

گریس نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ایسی ہی حالت میں متبلا خواتین کو اب آگے بڑھتے ہوئے مزید آپشنز دستیاب ہوں گی۔

ان کے بقول: ’جیسے کہ یہ شاندار بچہ ہے اور میرے اندر ایک حقیقی اور فطری خواہش تھی کہ میں ماں بنوں، اپنے بچے کو اپنے پیٹ میں رکھوں اور ان کو ابتدائی لمحے سے جانوں۔ تو، میں سمجھتی ہوں کہ صرف یہ جاننا کہ یہ ایک آپشن موجود ہے، یہ بہت بڑی بات ہے، جب کہ پہلے یہ موجود نہیں تھا۔‘

اپنے حمل کے دوران گریس نے ایسی ادویات لیں جو مدافعتی نظام کو کمزور کرتی ہیں تاکہ ان کا جسم رحم کو مسترد نہ کر دے۔

انہوں نے کہا کہ ان کا حمل کافی آسان تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا: ’میں کافی خوش قسمت تھی، مجھے بالکل بھی متلی نہیں ہوئی۔

شروع میں جسم میں تھوڑی خون کی کمی تھی، جو کہ تشویش کا باعث بنی لیکن دراصل یہ تقریباً 14 ہفتوں کے بعد خود بخود ٹھیک ہو گئی، اور میری ہر دو ہفتے بعد باقاعدگی سے سکریننگ کی جا رہی تھی۔ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ میں بہت توانائی محسوس کرتی ہوں جب تک میں نے بچہ پیدا نہیں کیا۔

’میں اب بھی بہت سرگرم تھی اور مجھے حمل کی تیسری سہ ماہی سے محبت تھی کیونکہ اس مرحلے میں آپ کا پیٹ بڑھتا ہے، آپ مسلسل بچے کو لاتیں مارتا محسوس کرتے ہیں۔ یہ بہت خوبصورت لمحہ تھا۔‘

رحم کے ٹرانسپلانٹ کے لیے مرکزی سرجن پروفیسر رچرڈ سمتھ تھے، جو ’وومب ٹرانسپلانٹ یو کے‘ نامی تنظیم کے کلینیکل لیڈ اور امپیریل کالج ہیلتھ کیئراین ایچ ایس ٹرسٹ میں کنسلٹنٹ گائناکالوجیکل سرجن ہیں ان کے ساتھ ازابیل کیورگا بھی شامل تھیں جو آکسفورڈ ٹرانسپلانٹ سینٹر میں کنسلٹنٹ سرجن اور آکسفورڈ یونیورسٹی ہسپتال کا حصہ ہیں۔

دونوں سرجن آپریشن تھیٹر میں موجود تھے جب ایمی پیدا ہوئی اور بچی کے والدین نے ان کا درمیانی نام ازابیل کیورگا کے اعزاز میں منتخب کیا۔

پروفیسر سمتھ اس پیدائش کی خوشی میں آبدیدہ ہو گئے تھے۔ انہوں نے کہا: ’مجھے حقیقت میں بہت خوشی ہو رہی ہے، یہ ناقابل یقین ہے کہ اس تحقیق کے آغاز کے 25 سال بعد آخرکار ہم پہلا بچہ دنیا میں لائے، چھوٹی ایمی ایزبل۔ یہ واقعی حیرت انگیز ہے۔‘

ازابیل کیورگا نے کہا: ’میرے لیے یہ مکمل خوشی اور مسرت ہے۔ میں انگس اور گریس کے لیے اتنی ہی خوش ہوں، کیا شاندار جوڑا ہے۔ یہ دراصل بہت جذباتی لمحہ تھا، یہ ابھی بھی بہت جذباتی ہے۔ یہ بہت شاندار ہے۔‘

’وومب ٹرانسپلانٹ یو کے‘ نے برطانیہ میں اب تک چار رحم کے ٹرانسپلانٹ کیے ہیں۔ پہلا گریس ڈیوڈسن پر اور پھر تین خواتین پر جنہوں نے مردہ ڈونرز سے رحم حاصل کیے۔

ان کے پاس مزید دو آپریشنز کے لیے کافی رقم ہے اور وہ مزید آپریشنز کرنے کے لیے فنڈ ریزنگ کر رہے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین