مجھے پاکستان واپس آئے ایک ہفتے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ میں اس ہفتے میں ہر قسم کے شاک سے گزر چکی ہوں۔ مہنگائی شاک، کلچر شاک، آنٹی شاک، پدرشاہی شاک۔
مجھے یاد نہیں پڑتا کہ چین میں رہتے ہوئے میں نے کبھی اپنے کپڑے استری کیے ہوں یا گھر سے باہر جاتے ہوئے ان پر ایک نظر بھی ڈالی ہو۔
یہاں گھر کے کپڑے الگ ہیں۔ باہر کے کپڑے الگ ہیں۔ دونوں استری کر کے پہننا لازم ہیں۔
گھر سے باہر ہر دو منٹ بعد کپڑوں کو ٹھیک کرنا بھی ضروری ہے۔ خاص طور پر رشتے داروں کے گھر ورنہ آپ کے جانے کے بعد وہ آپ کی خاندان میں مشہوری کرنا شروع کر دیں گے۔
اس ہفتے بہت ملنا ملانا رہا۔ کچھ لوگ ہماری طرف آئے۔ کچھ کی طرف ہم گئے۔
ایک گھر کا قصہ سنیے۔ اس دن گرمی شدت سے پڑ رہی تھی۔ گھر کی دونوں بہوئیں پسینے سے بھیگے ہوئے کپڑوں میں گھر کے کام نبٹا رہی تھیں۔
ایک بہو اسی حالت میں سسر کے کمرے میں رکھے فریج میں کچھ رکھنے آئیں تو ان کے پیچھے موجود ایک صاحب نے ان کا فرصت سے جائزہ لیا۔ اس دوران انہوں نے کمرے میں بیٹھے ہوئے افراد کی بھی فکر نہیں کی۔
بعد میں داڑھی پر ہاتھ پھیر کر زیرِ لب استغفار بھی پڑھ لی۔ پانچ منٹ بعد اسلام پر لیکچر بھی دے دیا۔
کہنے کو میری زندگی کی 26 بہاریں اسی ملک میں گزری ہیں لیکن چین میں گزرے پانچ سال ان 26 سالوں پر بھاری ہیں۔
وہاں مجھے وہ زندگی جینے کا موقع ملا جو کسی بھی شہر میں ایک باعزت شہری کو دستیاب ہونی چاہیے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا وہاں لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ میں کہتی ہوں آپ کو یہاں مذہبی آزادی حاصل ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی حاصل ہے؟ کیا اس آزادی نے آپ کی زندگی کو بہتر بنانے میں کوئی کردار ادا کیا ہے؟
ملک آپ کا دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ معاشرہ آپ کا تباہ ہو چکا ہے۔ ثقافت آپ کی ہے ہی نہیں۔ اخلاقیات سے تو خیر ہمارا بطور قوم کبھی تعارف ہی نہیں ہوا۔
چین کے عام شہری کو دستیاب زندگی یہاں لوگ ہر ماہ لاکھوں روپے خرچ کر کے حاصل کرتے ہیں۔
پاکستان میں عزت سے زندگی گزارنے کا حق لگژری بن چکا ہے۔
حکومت کی طرف سے عوام کے حصے میں ٹوٹی ہوئی سڑکیں، سہولیات سے عاری ہسپتال، ملاوٹ شدہ اشیا، لاغر و کمزور جانور اور حادثات آتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بازار چین سے درآمد شدہ اشیا سے بھرے ہوئے ہیں جن کی قیمت بہت زیادہ ہے اور معیار بہت کم۔
میری تنخواہ جو مجھے چین میں بہت زیادہ لگتی تھی، پاکستان میں بہت کم لگ رہی ہے۔
مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔ ہمارے گھر کا راشن جو آج سے تین سال پہلے دس ہزار روپے میں آتا تھا اب 30 ہزار روپے میں آتا ہے۔
میرے آنے کی خبر ہر طرف ہو چکی ہے۔ بہت سے احباب نے ملنے کی درخواست کی ہے۔ کچھ اگلے ہی دن ملنے پر اصرار کر رہے تھے۔
میں نے انہیں کہا کہ ابھی میرے پاس پاکستانی کپڑے اور جوتے نہیں ہیں۔ ان کا انتظام ہو جانے دیں، پھر ملیں گے۔ تب تک باہر نکلنے کا حوصلہ بھی آ جائے گا۔
آگے سے جواب آیا، ’ارے اتنا کیا تکلف۔ بن جائیں گے کپڑے بھی۔ تم بس آ جاؤ۔‘
ارے بھائی کیسے آ جاؤں۔ ان کپڑوں میں گھر سے نکلی تو دس نگاہیں میرے جسم سے چپک جائیں گی۔ کچھ لوگ خود ہی مجھے میری منزل تک چھوڑنے کی ذمہ داری اٹھا لیں گے۔ آپ بھی میرے جانے کے بعد میرے بارے میں باتیں کریں گے۔
اتنی تکلیف میں کیا پڑنا۔ تھوڑا صبر رکھیں۔ مجھے پاکستانی رنگ میں رنگنے دیں۔ پھر ملاقات ہو گی۔
میرے عزیز رشتے دار بھی مجھ سے ملنے کے لیے بے چین ہیں۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ مجھ میں ان تین سالوں میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔ میرا جسم ویسے کا ویسا ہے یا موٹا یا پتلا ہوا ہے۔
کچھ کو ان تحائف کو دیکھنے کی بےچینی ہے جو میں ان کے لیے اپنی امی کے ڈر سے لائی ہوں۔
کچھ سال پہلے تک چین سے آنے والے لوگ وہاں جگہ جگہ موجود جاپانی سٹور ’می نی سو‘ سے اپنے عزیزوں کے لیے تحائف خرید لاتے تھے۔ جب سے می نی سو یہاں کھلا ہے وہ سلسلہ بھی بند ہو چکا ہے۔
گرچہ وہاں می نی سو پر دستیاب اشیا یہاں کے سٹورز پر موجود اشیا سے بہت بہتر اور منفرد ہیں پر نہیں لائی جا سکتیں۔ لوگ فوراً ان پر سستا ہونے کا ٹیگ لگا دیتے ہیں۔
کرونا کی عالمی وبا کے بعد چین اور کرونا کا نام لازم و ملزوم ہو چکے ہیں۔ یہی دیکھ لیں کہ میری خالہ سے جب ان کے بڑے بیٹے نے پوچھا، ’باجی، چین سے کیا لائی ہیں؟‘
چھوٹے بیٹے نے فوراً جواب دیا، ’کرونا لائی ہیں۔‘
باجی نے یہ سنتے ہی ان کے لیے لائے ہوئے تمام تحائف چھپا دیے۔
نہ انہیں کرونا ملے گا نہ تحائف۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔