افغانستان: ملا عمر کی ’زمین سے نکالی گئی گاڑی‘ کون سے ماڈل کی؟

افغانستان اور خیبر پختونخوا کے دیہی علاقوں میں یہ گاڑی اب بھی چلتی ہے اور اس کو مقامی لوگ ’غواگئی‘ (اغوا کی گاڑی) کہتے ہیں جو زیادہ تر پبلک ٹرانسپورٹ یا سامان لانے لے جانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

ملا عمر کے زیر استعمال رہنے والی گاڑی جو زمین سے نکالی گئی (تصویر: ٹوئٹر، محمد جلال)

امریکہ نے جب اکتوبر 2001 میں افغانستان میں کارروائی شروع کی اور طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری شروع کی تو اس وقت کے طالبان سربراہ ملا محمد عمر امریکہ کے لیے ایک بہت بڑا ٹارگٹ سمجھے جاتے تھے۔

اس وقت مختلف رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ ملا محمد عمر افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان چلے گئے ہیں تاہم کچھ عرصے بعد امریکہ کے مستند جریدے نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ امریکی افواج کے افغانستان میں داخلے کے بعد ملا عمر افغانستان ہی میں موجود تھے۔

اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری آیام بھی افغانستان میں ہی گزارے۔

رپورٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ ملا عمر اس وقت قندھار سے افغانستان کے صوبہ زابل منتقل ہوگئے تھے اور وہاں ایک مقامی شخص کے گھر میں رہ رہے تھے۔

اگست 2021 میں افغان طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد طالبان کی جانب سے ملا عمر کے زیراستعمال اس گھر کی ویڈیوز اور تصاویر بھی جاری کی گئی تھیں جس میں ملا عمر نے زندگی کے آخری دن  گزارے تھے۔ 

ملا عمر کے قندهار سے زابل سفر کرنے کے دوران مبینہ طور پر جو گاڑی استعمال ہوئی، حال ہی میں اسے زمین سے باہر نکالا گیا ہے جسے طالبان نے ہی زمین کے اندر چھپایا تھا۔ 

افغان طالبان کے ترجمان قاری احمد يوسف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گاڑی اب زمین سے نکالی گئی ہے۔‘ قاری احمد نے بتایا ’یہ ممکنہ طور پر وہ گاڑی ہے جس پر ملا عمر نے قندھار سے زابل کا سفر کیا تھا اور اسے زمین کے اندر چھپا دیا گیا تھا۔‘

ٹوئٹر پر سرگرم اور طالبان کے قریب رہنے  والے محمد جلال نامی شخص نے اس گاڑی کے تصاویر بھی شیئر کی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ ٹویوٹا کی سفید رنگ کی گاڑی ہے جسے پلاسٹک میں لپیٹ کر زمین میں چھپا دیا گیا تھا۔ تصاویر کی تصدیق افغان طالبان کے ترجمان قاری احمد یوسف نے بھی کی ہے۔

قاری احمد يوسف سے جب پوچھا گیا کہ کیا یہ گاڑی افغان طالبان کی حکومت کی سرپرستی میں نکالی جا رہی اور اس گاڑی کو کسی میوزیم میں رکھنے کا ارادہ ہے؟ تو جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بعد کی باتیں ہے کہ اس کے ساتھ کیا کرنا ہے۔‘

افغان طالبان کے سینیئر رہنما انس حقانی جو قطر میں امریکہ کے ساتھ مذاکراتی ٹیم کا حصہ بھی تھے، انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ان تصاویر کے بارے میں لکھا کہ ’اس گاڑی میں ایسی شخصیت نے سفر کیا جنہوں نے حیران کن تاریخ رقم کی ہے اور خالی ہاتھ بہت سے ممالک کے خلاف مقابلہ کیا اور اس مقابلے کو جیت لیا۔‘

انس حقانی نے مزید لکھا ’یہ ملا محمد عمر کی یاد گار ہے اور اسے افغانستان کے قومی میوزیم میں رکھ کر محفوظ بنایا جائے گا۔‘

زمین سے نکالی گئی گاڑی کون سی ہے؟

تصایر میں بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ یہ ٹویوٹا کرولا سٹیشن ویگن گاڑی ہے اور مبینہ طور پر اس گاڑی کی پہلی جنریشن ہے جو 1987 میں لانچ کی گئی تھی، چھ جنریشن تک یہ ماڈل چلتا رہا۔ جلال کی جانب سے شیئر کی گئی تصاویر کے حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ’کرونا ویگن گاڑی ہے جسے افغانستان میں غواگئی کہتے ہیں۔‘

زمین سے نکالی گئی گاڑی اس ویریئنٹ کی چھٹی جنریشن کی گاڑی دکھائی دیتی ہے جو پہلی مرتبہ 1991 میں لانچ کی گئی تھی جس کے تین ویرینٹ آئے۔ دو ویرینٹ پیٹرول سے چلنے والے 1300سی سی تھے جبکہ ان میں ایک ڈیزل انجن گاڑی تھی جسے کرونا ویگن کہا جاتا تھا۔

افغانستان اور خیبر پختونخوا کے دیہی علاقوں میں یہ گاڑی اب بھی چلتی ہے اور اس کو مقامی لوگ ’غواگئی‘ (اغوا کی گاڑی) کہتے ہیں جو زیادہ تر پبلک ٹرانسپورٹ یا سامان لانے لے جانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

 ضلع کرم جہاں غواگئی گاڑیاں بہت تعداد میں موجود ہیں، وہاں کے رہائشی عالم خان اورکزئی کا کہنا ہے کہ اس نام کے پیچھے ایک کہانی یہ بتائی جاتی ہے کہ اسے ’اغوا کی گاڑی‘ اس لیے کہتے ہیں  کیونکہ یہ نان کسٹم پیڈ ہوتی ہے اور اسے غیر قانونی طریقے سے افغانستان سے لایا جاتا ہے۔

اس نام کے بارے میں ایک اور کہانی بھی مشہور ہے۔ ضلع دیر کے علاقے چکدرہ میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے شو روم سے وابستہ امیر زمان کہتے ہیں کہ اس گاڑی کے فرنٹ بونٹ کے دونوں اطراف دو بڑے شیشے نصب ہوتے تھے۔ یہ شیشے امیر زمان کے مطابق گائے کے سینگوں کی طرح دکھائی دیتے تھے اور تب سے اس گاڑی کو غواگئی کا نام دیا گیا۔‘

یاد رہے کہ پشتو میں ’غوا‘ گائے کو کہتے ہیں امیر زمان کے مطابق یہ نام ’غوا سے غواگئی‘ ہو گیا۔

 مالاکنڈ ڈویژن اور بعض قبائلی اضلاع میں چونکہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی اجازت ہے تو وہاں پر یہ زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہیں۔ آج کل مارکیٹ میں موجود فیلڈر گاڑیوں کو بھی اسی نام سے پکارا جاتا ہے کیونکہ کرولا وین اور فیلڈر گاڑیوں کی شکل تقریباً ایک جیسی ہے۔

ٹویوٹا ہی کیوں؟

عسکریت پسند تنظیموں کے رہنماوٴں کے زیر استعمال رہنے والی گاڑیوں کے حوالے سے 2001 میں نیویارک ٹائمز میں چھپی ایک رپورٹ کے مطابق ملاعمر اور اسامہ بن لادن ایس یو ویز(سپورٹس یوٹیلیٹی وہیکل) استعمال کرتے تھے جن میں ٹویوٹا کی لیںڈ کروز اور ہائی لکس جیسی گاڑیاں شامل ہیں۔

اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملا عمر زیادہ تر میڈیا سے دور رہتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی صرف ایک تصویر اور ایک انٹرویو شائع ہوئے تاہم ان کو ایک مرتبہ مقامی افراد نے امریکی گاڑی شیورلے سے اترتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملا عمر کے زیر استعمال گاڑی کے حوالے سے رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ملا عمر امریکی کمپنی شیورلے کی ’سوبربن‘ گاڑی  کبھی کبھی استعمال کرتے تھے اور گاڑی کے شیشے کالے ہوتے تھے جبکہ اسامہ بن لادن زیادہ تر ٹویوٹا کی لینڈ کروزر گاڑی استعمال کرتے تھے۔

رپورٹ کے مطابق ٹویوٹا نے تب ایک پریس ریلیز بھی جاری کی تھی جب اسامہ بن لادن کو لینڈ کروزر میں دیکھا گیا تھا، پریس ریلیز میں سوال اٹھایا گیا کہ جب افغانستان پر اقتصادی پابندیاں بھی ہیں تو یہ گاڑیاں کیسے افغانستان برآمد کی جاتی ہیں؟

ٹویوٹا نے 2001 میں لکھا ’پچھلے پانچ سال میں صرف ایک لینڈ کروزر افغانستان سپلائی کی گئی جبکہ باقی جتنی بھی ٹویوٹا کی گاڑیاں ہیں وہ ممکنہ طور پر پڑوسی ممالک سے غیر قانونی طریقے سے سپلائی کی جاتی ہیں۔‘

رپورٹ کے مطابق ’ٹویوٹا  اور شیورلے کی یہ گاڑیاں پائیدار، ائیر کنڈیشنڈ اور آرام دہ ہیں نیز یہ افغانستان کے موسم اور وہاں کے ماحول کے مطابق بہت اچھی گاڑیاں ہیں، جبکہ ٹویوٹا کے ہائی لکس ٹرک زیادہ لوگ اور اسلحہ لے جانے کے لیے ایک اچھا آپشن ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا