ایک امریکی خاتون کو سپر سٹور میں آئس کریم چاٹ کر دوبارہ فریزر میں رکھنے کی پاداش میں 20 سال قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
مقامی پولیس کے مطابق یہ واقعہ ریاست ٹیکساس کے شہر لوفکن کی وال مارٹ میں 28 جون کو پیش آیا، جہاں ایک خاتون نے فریزر سے آئس کریم کا ٹب نکالنے کے بعد اسے کھول کر چاٹا اور دوبارہ فریزر میں رکھ دیا۔
تاحال مشکوک خاتون کی شناخت کی تصدیق نہیں کی جاسکی، تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کے بعد مشتبہ ملزمہ کے خلاف صارفین کی مصنوعات سے چھیڑ چھاڑ کے جرم میں وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے ہیں۔
ٹیکساس پینل کوڈ کے مطابق صارفین کی مصنوعات سے چھیڑ چھاڑ سیکنڈ ڈگری جرم تصور کیا جاتا ہے، جس کی سزا 20 سال قید اور دس ہزار ڈالر جرمانہ ہو سکتی ہے۔
اس واقعے کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہو گئی ہے جس کو صرف ٹوئٹر پر ایک کروڑ دس لاکھ بار دیکھا جا چکا ہے۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر مشتبہ خاتون کو ’دی لوفکن لِکر‘ کا خطاب دیا گیا ہے۔
پولیس اس واقعے کی فلم بندی کرنے والے شخص کی بھی تلاش کر رہی ہے جو مشتبہ خاتون کو بلیو بیل آئس کریم کا ٹب کھول کر اسے چاٹنے اور دوبارہ فریزر میں رکھنے کی ترغیب دے رہا تھا۔
What kinda psychopathic behavior is this?! pic.twitter.com/T8AIdGpmuS
— Optimus Primal (@BlindDensetsu) June 29, 2019
اس تمام شور شرابے کے دوران ایک خاتون نے سوشل میڈیا پر مشتبہ ملزمہ ہونے کا دعویٰ کر دیا جن کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے آئس کریم چاٹی تھی اس وقت ان کو شدید نزلہ تھا۔ یہی نہیں، مشتبہ خاتون نے دوسرے افراد کو بھی ایسی جرات دکھانے کا چیلنج دے ڈالا۔
دوسری جانب بلیو بیل کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد کمپنی نے لوفکن وال مارٹ سے نہ صرف متاثرہ ٹب ہٹا لیا ہے بلکہ وہاں موجود آدھی گیلن آئس کریم کو بھی تلف کر دیا ہے تاکہ صارفین کا اعتماد بحال کیا جا سکے۔
لوفکن پبلک سیفٹی کے ڈائریکٹر گیریلڈ ولیمسن نے کہا: ’صارفین کا تحفظ ان کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے اس لیے انہیں خوشی ہے کہ متاثرہ پروڈکٹ کو شیلف سے ہٹا لیا گیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ہم یہ دیکھ کر ششدر ہیں کہ کوئی کیسے یہ کام کر سکتا ہے۔ ہم نے اس واقعے کو انتہائی سنجیدگی سے لیا ہے اور ہم اسے ایک بڑے جرم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔‘
لوفکن پولیس نے ایک بیان میں تصدیق کی ہے کہ عدالت سے ملزمہ کو 20 سال قید کی سزا کی سفارش کی جائے گی جبکہ پولیس اس سلسلے میں فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے بھی رابطے میں ہے تاکہ مشتبہ خاتون پر فیڈرل چارجز بھی لگائے جا سکیں۔
© The Independent