لبنان کے پہاڑی سلسلے جبل الشوف کے دامن میں واقع چھوٹے سے گاؤں بشتفین میں ہنہ فیاض کا بچپن لکڑی سے بنی ان کھڈیوں کی آوازیں سنتے گزرا جو پتھروں کی مدد سے بنائے گئے ان کے آبائی گھر میں لگی ہوئی ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ہنہ فیاض کے خاندان میں تین نسلوں سے کھڈیوں پر کپڑا تیار کیا جا رہا ہے لیکن انہیں ڈر ہے کہ صدیوں پرانا یہ ہنر ان کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گا۔
ان کی کوئی اولاد نہیں اور ان کے اکلوتے بھتیجے نے زیادہ معاوضے والی ملازمت کا انتخاب کیا ہے۔
ہنہ فیاض نے روئٹرز کو بتایا: ’ماضی میں ہنرمند انہی دست کاریوں پر انحصار کرتے تھے مثلاً مٹی کے برتن اور دوسری اشیا لیکن اب یہ متروک ہو رہے ہیں کیوں کہ نئی نسلیں انہیں تیار کرنا نہیں سیکھ رہیں۔
’اس لیے بلاشبہ اس کام میں کوئی تسلسل نہیں۔ جب کسی دست کار کی موت ہوتی ہے اور اگر کوئی سنبھالنے والا کوئی نہ ہو تو اس ہنر کی بھی موت ہو جاتی ہے۔‘
لگ بھگ تین سال سے جاری معاشی بحران کے باوجود، جس نے لبنان کی زیادہ تر آبادی کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہے، چند لوگ اب بھی فیاض کے رنگ برنگے اور خوب صورت کام سے آراستہ عبائے اور دیگر ملبوسات خریدنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان ملبوسات کو تیار کرنے میں چار ہفتے لگ سکتے ہیں۔
ہنہ فیاض کی عمر 60 سال سے زیادہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکاری اداروں کی غیر دلچسپی کے پیش نظر بہت سے کاریگر زیادہ پائیدار ملازمت کا انتخاب کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
’لبنان میں کاریگروں کو ان کے حقوق نہیں ملے۔ انہیں وہ اہمیت نہیں دی گئی جو دوسرے پیشوں سے وابستہ لوگوں کو دی گئی۔‘
ہنہ کے کندھے اور گھٹنے کھڈی کے پیڈل پر کام کرنے اور دھاگے کی شٹل کو لکڑی سے بنی کھڈی کی ایک طرف سے دوسری طرف پھینکتے پھینکتے تھک جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنے ہنر کو آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں۔
لیکن ہنہ کے برعکس نفح یوسف نفح کو یقین ہے کہ ان کا ہنر ان کے بعد بھی زندہ رہے گا۔ انہوں نے پہلے ہی اپنا آبائی کام بچوں کو سکھانا شروع کر دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نفح کا تعلق بیروت کے شمال میں واقع مسیحی گاؤں بیت شبیب سے ہے۔ ان کا خاندان تین صدیوں سے گھنٹیاں بنا رہا ہے۔ وہ لبنان کی واحد گھنٹی فاؤنڈری کے مالک ہیں۔
نفح کہتے ہیں کہ ’گھنٹی لوگوں کو عبادت کے لیے آنے کی دعوت دیتی ہے۔ یہ لوگوں کو گرجا گھر کی طرف بلاتی ہے۔ یہ لوگوں کو کسی غم یا خوشی کے بارے میں بتاتی ہے۔
’اسی لیے میں اس صنعت میں کام کرنا، اس میں ثابت قدم رہنا اور اس فن کو اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں کو سکھانا چاہتا ہوں۔‘
نفح نے 17 سال کی عمر میں اپنے والد سے پہلی گھنٹی بنانا سیکھی۔ ان کے بقول: ’یہ ہنر میرے اندر موجود تھا۔ میں اس کے ساتھ قدم بہ قدم آگے بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ میں نے اسے مکمل سیکھ لیا۔‘
ان کی ورک شاپ میں ہر طرف سامان بکھرا پڑا ہے۔ اس کے سامنے والی چھت پر سرخ ٹائلز لگائی گئی ہیں جب کہ اس کے اردگر ان کے آبائی گاؤں کے سرسبز جنگل ہیں۔
گھنٹیاں بنانے کا ہنر سخت جسمانی مشقت کا تقاضہ کرتا ہے۔ دھات پگھلنے والے تندوروں کے قریب بہت زیادہ وزن اٹھانا اور گھنٹوں کام کرنا پڑتا ہے۔
لبنان میں معاشی بحران شروع ہونے کے بعد 52 سالہ کاریگر کو اب ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے کیوں کہ سرخ تانبے اور ٹِن کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔
ان حالات میں ان کی گھنٹیوں کی طلب ایک سال میں 30، 40 سے کم ہوکر ایک درجن کے قریب رہ گئی ہے۔
بہرحال وہ اپنا پیشہ ترک کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور ان کا ماننا ہے کہ تمام لبنانی کاریگروں کو اپنی دست کاریوں کو ’ایک خزانہ‘ سمجھتے ہوئے ان سے وابستہ رہنا چاہیے۔