ریلوے سٹیشن پر اچانک ہلچل مچ گئی۔ نعروں کا شور اتنا تھا کہ یہ راج کپوراور وحیدہ رحمان تک کے کمپاؤنڈ میں سنے گئے۔ فلم یونٹ ویسے ہی عکس بندی سے تھکا ہوا تھا۔ اسی لیے کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ جا کر دیکھے کہ آخر یہ ماجرہ کیا ہے اور کون ریل وے سٹیشن پر چیخ پکار میں لگا ہوا ہے۔
ریل گاڑی جب طے شدہ وقت پر آگے نہیں بڑھی تو راج کپور اور وحیدہ رحمان کو بھی تشویش ہونے لگی۔ بھوپال کے نزدیک یہ چھوٹا سا قصبہ بینا تھا۔ جہاں کے پرفضا مقامات پر فلم ’تیسری قسم‘ کی عکس بندی مکمل کر کے یونٹ واپس بمبئی کا رخ کر رہا تھا۔
راج کپور اور وحیدہ رحمان کی 1966میں تخلیق کی جانے والی ’تیسری قسم‘ ایک روایتی فلم کہی جا سکتی ہے۔ ہندی زبان کے رائٹر پھانشور ناتھ رینو کے ناول ’مار گئے گلفام‘ سے متاثر ہو کر فلم بنائی جا رہی تھی۔
خاص بات یہ بھی تھی کہ اسے بمل رائے کے سٹنٹ باسو بھٹاچاریہ بنا رہے تھے۔ جن کی بطور ہدایت کار یہ پہلی کاو ش تھی۔جبکہ دوسرا خاص امر یہ بھی تھا کہ نغمہ نگار شیلندر جو کاغذ پر مدھر اور دلوں کو چھو لینے والے گیت لکھتے رہے تھے۔ انہوں نے پہلی بار کسی فلم کے لیے سرمایہ لگانے پر آمادگی ظاہر کی تھی اور بطور پروڈیوسر وہ ’تیسری قسم‘ میں اپنی قسمت آزمارہے تھے۔
فلم کی کہانی ایک بیل گاڑی چلانے والے ہیرامن اور نوٹنکی رقاصہ ہیرا بائی کے گرد گھومتی تھی۔دونوں پیار کے سفر کے مسافر بنتے ہیں اور پھر وہی روایتی نشیب و فراز لیکن فلم میں لوک تھیٹر سے وابستہ خواتین فنکاروں کے ساتھ ہونے والے استحصال کو بھی کمال خوبی سے نمایاں کیا گیا۔
’تیسری قسم‘ کے سکرپن پلے نابیندو گھوش نے لکھے تھے۔ جو اس تخلیق سے قبل دیوداس، سجاتہ اور بندھنی جیسی فلموں سے شہرت پاچکے تھے جبکہ موسیقا ر کے لیے راج کپور کے من پسند شنکر جے کشن تھے۔ اسی طرح گیت جہاں خود شیلندر کے قلم کی جادوگری تھے وہیں حسرت جے پوری نے بھی دلوں کو گداز کردینے والے نغمات لکھے۔
فلم یونٹ کے ایک رکن نے ہاپنتے کاپنتے آکر ریل کمپاؤنڈ میں یہ اطلاع دی کہ کوئی سینکڑوں طالب علم ہیں۔ جنہوں نے چاروں طرف سے ٹرین کو روکا ہوا ہے،جو اداکاروں سے ملاقات کیے بغیر ٹرین کے سامنے سے ہٹنے کو تیار نہیں۔
راج کپور اور وحیدہ رحمان کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ یونٹ میں سے کسی نے بتایا کہ طالب علموں کا ایک گروہ تو کئی دنوں سے عکس بندی کا مقام دریافت کرتا رہا ہے، جنہیں جان بوجھ کر ہردفعہ غلط پتا بتایا جاتا لیکن لگتا ہے اب وہ درست مقام پر پہنچ ہی گئے ہیں۔ یہ بات راج کپور کے علم میں آئی تو انہوں نے برہمی کا اظہار کیا۔ ان کا یہی کہنا تھا کہ طالب علم تواتر کے ساتھ جھوٹ بولنے پر زیادہ آگ بگولہ ہوئے ہیں۔
راج کپور کے مطابق اگرطالب علموں کو ایسے دربدرنہ بھٹکایا جاتا تو وہ اس قدر جلال میں بھی نہیں آتے اوریوں ان کی ٹرین کو گھیرتے بھی نہیں۔ اب یونٹ سٹاف انہیں کیا بتاتا کہ انہوں نے یہ سب کچھ عکس بندی کے دوران راج کپور ہی ہجوم سے بچانے کے لیے کیا تھا۔ کیونکہ سبھی جانتے تھے کہ راج کپور کو فلم کے سیٹ پر غیر ضروری لوگوں کی موجودگی سخت ناپسند تھی۔
راج کپور کے اب تیوریوں پر بل چڑھنے لگے، انہیں فکر ستارہی تھی کہ بینا سے واپسی پر جو انہوں نے دیگر فلموں کے لیے وقت اور تاریخیں دے رکھی ہیں، وہ اس احتجاج اور مظاہرے سے متاثر نہ ہوں۔ اسی بات کے پیش نظر انہوں نے طالب علموں کو سمجھانے کا فیصلہ کیا۔
راج کپور کا خیال تھا کہ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے بعد احتجاجی طالب علموں کو تھوڑا سکون اور قرار آجائے گا۔ آخروہ ایک سپرسٹار تھے۔ کمپاؤنڈ سے باہر آکر انہوں نے طالب علموں کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں اس وقت مایوسی ہوئی۔
جب طالب علموں کا کہنا تھا کہ وہ راج کپور نہیں بلکہ وحیدہ رحمان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے آئے ہیں۔ اب ایسے میں راج کپور کی انا کو یقینی طور پر ٹھیس پہنچی ہوگی۔ جبھی انہوں نے طالب علموں کو صاف انکار کردیا کہ وحیدہ رحمان ایسے یوں ان سب کے سامنے نہیں آئیں گی، خاص کر کسی کی فرمائش پر تو ہرگز نہیں۔ وہ خاتون ہیں اور ان کی پسند اور ناپسند کا عمل دخل ضروری ہونی چاہیے۔
یہ کہہ کر راج کپور اپنے کمپاؤنڈ میں تو آکر بیٹھ گئے لیکن اب باہر سے شور شرابہ بلند ہونا شروع ہوگیا۔ یہاں تک کہ ریل گاڑی پر پتھراؤ بھی ہونے لگا۔کوئی ایسا سرپھرا بھی نکلا جس نے لاٹھیوں اور ڈنڈے سے ٹرین کے اس کمپاؤنڈ پر حملہ کرنا شروع کردیے۔ راج کپور کا پٹھانی چہرہ اب غصے سے لال ہوچکا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فلم یونٹ جس ڈبے میں تھا، اس کی کھڑکیاں اور دروازے بند کردیے گئے۔ راج کپور اور وحیدہ رحمان کو کہہ دیا گیا کہ وہ کسی صورت باہر نہ نکلیں کیونکہ جنونی طالب علم اپنے آپے میں نہیں تھے۔
ہرگزرتے لمحے کے ساتھ صورت حال بگڑتی جارہی تھی اور ریل گاڑی ٹس سے مس نہیں ہورہی تھی۔ ایسے میں راج کپورکو بیٹھے بٹھائے گلے پڑنے والی اس مصیبت نے اور طیش میں لانے کا سامنے مہیا کردیاتھا۔
رہ رہ کر انہیں یونٹ پر بھی غصہ تھا، جن کی ناسمجھی اور جھوٹ کی بنا پر یہ صورت حال دیکھنے کو ملی۔ریل گاڑی پر پتھراؤ اب بڑھتا ہی جارہا تھا۔ حد تو یہ ہوگئی کہ بوتلیں تک ریل گاڑی پر اچھالی جارہی تھیں۔
راج کپور کے ضبط کا بندھن بھی ٹوٹا تو انہوں نے نوجوانوں کو سبق سکھانے کا سوچا اور جھٹ اپنی نشست سے اٹھے اور کمپاؤنڈ سے باہر کا رخ کرنا چاہا۔
ان کے ارادے کو بھانپ کر وحیدہ رحمان، ان کی بہن اور ہیرڈریسر اب راج کپور کے آگے کھڑے ہوگئے۔ وہ بضد تھے کہ باہر جاکر ذرا ان مظاہرین سے د و دو ہاتھ کریں۔ انہیں بتائیں کہ یہ کون سا مہذبانہ طریقہ ہے لیکن ان تینوں نے راج کپور کا راستہ روک کراور گھیسٹ کر واپس بٹھا دیا۔ ہر بار راج کپور اٹھنے کی کوشش کرتے لیکن یہ تینوں خواتین زور زبردستی سے ان کے اس ارادے کو کامیاب نہیں ہونے دے رہی تھیں۔
اسی اثنا میں شور ذرا تھما۔ ہلکی سے کھڑکی کھول کر جھانکا گیا تو پولیس اہلکار کھڑے نظر آئے۔ جنہوں نے اس پرتشدد ہجوم کو منتشر کرنے میں لاٹھی چارج کرنا شروع کردیا۔
پھر چند لمحے بعد باہر خاموشی کا راج تھا۔ جو اس جانب اشارہ تھا کہ مظاہرین کو نو دو گیارہ کردیا گیا ہے۔ پتا لگا کہ اس جم غفیر کو تتر بتر کرنے کے لیے ریلوے حکام نے پولیس کو اطلاع دی۔ جو دیر سے پہنچی لیکن اس نے آکر ناخوشگواراور کشیدہ صورتحال کوقابوکیا۔ پولیس اور ریلوے حکام کی یقین دہانی کے بعد ریل گاڑی بمبئی کی جانب بڑھی۔
جہاں پہنچ کر یونٹ کے علم میں آیا کہ ان کے کمپاؤنڈکے ہر حصے میں کانچ کی کرچیاں ور پتھروں کے ریزے ہی ریزے ہیں۔یہاں تک کہ یہ ان کے سامان تک سے نکلے۔
مارچ 1966میں فلم’تیسری قسم‘ کی نمائش سے قبل راج کپور نے اس کے ٹیمپو پر خاصا اعتراض کیا تھا، ان کا خیال تھا کہ شیلندر کی یہ تخلیق سنجیدہ موضوع لیے ہوئے ہے۔
دوسرے معنوں میں آرٹ مووی ہے۔ بہتر ہوگا کہ اس میں کچھ کمرشل پہلوؤں کا خیال رکھتے ہوئے تبدیلی کی جائے لیکن نغمہ نگار اس نقطے کو خاطر میں نہ لائے۔ ’تیسری قسم‘ کے گیت سجن رے جھوٹ نہ بولو، چلت مسافر، پان کھائیں سیاں، دنیا بنانے والے، سجنا بیری ہو گیا ہماراور مار گائے گلفام نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔ شیلندر کو امید تھی کہ گیتوں کی طرح فلم بھی سپر ہٹ ثابت ہوگی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
’تیسری قسم‘ کمرشل اعتبار سے ناکام رہی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بھارت کے قومی ایوارڈ کے لیے بہترین فیچر فلم کا اعزاز حاصل کرگئی۔ شیلندر کو بار بار اس بات کاملال رہاکہ کاش وہ راج کپور کی بات مانتے ہوئے فلم میں کچھ تبدیلیاں کرتے تو نتائج کچھ اور آتے کیونکہ راج کپور نے ایک اداکار کی حیثیت سے نہیں بلکہ ہدایتکار کی نگاہ سے انہیں یہ مشورہ دیا تھا۔
شیلندر کو ’تیسری قسم‘ کی ناکامی کا دکھ دل کا روگ لگا بیٹھا۔ سرمایہ بھی ڈوب گیا لیکن حصول کچھ بھی نہ ہوا، دن بدن صحت گرتی رہی۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ راولپنڈی میں آنکھ کھولنے والے نغمہ نگار نے بطور پروڈیوسر اپنی پہلی اور آخری فلم کی نمائش والے سال ہی 14دسمبر کو اس دنیا سے صرف43برس کی عمر میں بمبئی میں منہ موڑ لیا۔