لاہور کی خاتون صحافی ماہرہ ہاشمی کی عید الاضحیٰ کے ایام میں دوران ڈیوٹی نوجوان کو تھپڑ مارنے والی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں گمان یہ تھا کہ کیمرے کے سامنے آنے پر خاتون رپورٹر نے نوجوان کو تھپڑ مارا مگر انہوں نے بتایا کہ ’وہ دوستوں کے ساتھ پارک میں لڑکیوں کو تنگ کر رہا تھا۔‘
مائرہ کے بقول نوجوانوں کے اس گروپ نے انہیں بھی تنگ کیا جس پر انہوں نے اپنے دفاع میں تھپڑ مار دیا کیونکہ ’پارکوں میں اکثر لڑکے خواتین خاص طور پر لڑکیوں کو تنگ کر کے انجوائے کرنے آتے ہیں۔‘
انہوں نے کہاکہ وہ ٹی وی چینل میں بطور رپورٹر کام کرتی ہیں اور اسائمنٹ ڈیسک نے انہیں پارک میں ایز لائیو بیپر کرنے کی ڈیوٹی سونپی تھی۔
جب وہ ڈیوٹی کے لیے پارکوں میں لوگوں کا رش دکھانے گئیں اور پارک میں پہنچیں تو ان سمیت کئی لڑکیوں کو لڑکوں کا گروپ تنگ کر رہا تھا، ان پر جملے کس رہا تھا۔ انہوں نے منع کیا تو وہ انہیں بھی تنگ کرنے لگا۔ جب وہ بیپر ریکارڈ کرنے لگیں تو ’کیمرے کے سامنے آکر بار بار آگے ہاتھ ہلا دیتا، ریکارڈنگ خراب ہورہی تھی پہلے پیار سے سمجھایا پھر جب وہ باز نہ آیا تو اسے تھپڑ دے مارا۔‘ جس پر انہیں کوئی پچھتاوا نہیں۔
مائرہ نےانڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے بھیجے گئے سوالات کا آن کیمرہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’جو بھی لڑکیوں کو تنگ کرے گا اسے ایسا ہی جواب ملے گا۔ پاکستان بدل چکا ہے، وہ زمانہ گزر گیا جب لڑکیوں کو چھیڑنے یا تنگ کرنے پر وہ شرم کے مارے چپ ہوجاتی تھیں۔‘
ان کے مطابق ’اس معاملے پر پارکوں میں انتظامیہ بھی اس طرح کی حرکتوں کو سنجیدہ نہیں لیتی اور شکایت پر کوئی کارروائی بھی ہونے کا یقین نہیں۔ اس لیے اپنے دفاع کا حوصلہ رکھتی ہوں کیونکہ اس طرح کے حالات کا اکثر خواتین کو کام کے دوران سامنا کرنا پڑتا ہے تو اپنا خیال خود ہی رکھنا ہوگا۔‘
کیا خواتین صحافیوں کے لیے ایسا رویہ مناسب ہے؟
لاہور پریس کلب کے صدر اعظم چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردوسے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ویسے تو ورکنگ خواتین ہوں یا گھریلو، اس قسم کے حالات معاشرے میں ہر طرف دکھائی دیتے ہیں لیکن سول ڈیفنس کی تو قانون میں بھی اجازت ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’پہلے تو انتظامیہ کو ایسے مقامات خاص طور پر پارکوں میں جہاں فیملیز تفریح کے لیے آتی ہیں وہاں خواتین سے چھیڑ چھاڑ اور تنگ کرنے والے اوباش نوجوانوں کو داخلہ سے روکنا چاہیے یا پھر کیمروں کی مدد سے خود مانیٹر کرنا چاہیے کیونکہ کئی خواتین شکایت کرنے سے بھی گریز کرتی ہیں۔‘
اعظم چوہدری نے کہاکہ ’جس طرح 14اگست پر ٹک ٹاکر لڑکی عائشہ سے لاہور کے ہی ایک پارک میں ہراسمنٹ کا واقعہ پیش آیا تھا اس کی بھی یہی وجہ تھی کہ انتظامیہ اور سکیورٹی اس طرح کے واقعات رونما ہونے کے بعد ہوش میں آتے ہیں، اس سے قبل کوئی ٹھوس حکمت عملی اختیار نہیں کی جاتی۔‘
ان کے خیال میں ’خواتین کو ایسے حالات میں خود بھی بہادری سے جینے کی عادت ڈالنی چاہیے جس طرح کا ماحول ہو اس کے مطابق خود کو محفوظ رکھنے پر توجہ دینی چاہیے۔ ویسے تو فیملیز کے ساتھ مرد ہوتے ہیں مگر جو خواتین اکیلی کام کرتی ہیں انہیں اس طرح کے ردعمل کا حق حاصل ہے۔‘