لاہور کے علاقے ڈیفنس میں پیر کو گھریلو تشدد سے ہلاک ہونے والے 11 سالہ بچے کامران کے کیس نے اس وقت نیا رخ اختیار کر لیا جب مقتول کو مبینہ طور پر تشدد سے قتل کرنے والے ابوالحسن نامی شخص کے قبضے سے بچے کی کمسن بہن بھی برآمد ہوئی۔
پولیس نے کامران کے قتل کے مرکزی ملزم ابوالحسن کو بہاولپور سے گرفتار کر لیا ہے۔
یاد رہے کہ پیر کو لاہور کے علاقے ڈیفنس کے ایک گھر میں 11 سالہ کامران کو مبینہ طور پر تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا جبکہ اس کا چھوٹا بھائی رضوان زخمی حالت میں ملا تھا۔
ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کامران عادل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس کیس کے بارے میں عید کے دوسرے روز ایک نجی ہسپتال نے رپورٹ کیا تھا کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ایک بچے کی زخمی لاش ہسپتال لائی گئی ہے۔
کامران عادل کے مطابق جب پولیس اہلکار ہسپتال پہنچے تو لاش کے ساتھ دو لوگ تھے جو یہ نہیں بتا پا رہے تھے کہ وہ بچے کی لاش وہاں کیوں لے کر آئے تھے۔
’پھر جب ہم نے ان کے ڈیفنس والے گھر پر چھاپہ مارا تو وہاں ہمیں مقتول بچے کا بھائی ملا جس کا جسم زخمی تھا۔ جب ہم نے رضوان سے بات چیت کی تو معلوم ہوا کہ ان کی ایک چھوٹی بہن بھی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس بچی سے کامران کے قتل کا مرکزی ملزم ابوالحسن شادی کرنے والا ہے۔ ’جس کے بعد ہم نے ابوالحسن کی تلاش شروع کی، اور گذشتہ رات بہاولپور سے بچی کو بھی برآمد کر لیا اور ابوالحسن کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘
ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کامران عادل نے مزید بتایا کہ ’ابوالحسن پیر فقیری کرتے ہیں اور ان بچوں کے والد ان کے مرید تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تحقیقاتی افسر کے مطابق بچوں کے والد کراچی میں مزدوری کرتے ہیں اور انہوں نے ’ابوالحسن کے پاس ایک بچہ 1500 جبکہ دوسرا 1000 روپے میں رکھوایا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ بچے کی لاش کا پوسٹ مارٹم اور فرانزک کروا لیا گیا ہے جس کی رپورٹ ابھی نہیں آئی ہے لیکن چونکہ بچے کے والد یہاں موجود نہیں ہیں اس لیے ہم نے عدالت سے آرڈر لے کر بچے کی تدفین کر دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ابوالحسن کو ان کے والد نصر اللہ نے عاق کیا ہوا تھا اور وہ ڈیفنس میں نہیں بلکہ مغل پورہ کے علاقے میں رہتے تھے۔
’وہ ان دونوں بچوں کو ڈیفنس سے رکشے کے ذریعے یہ کہہ کر اپنے گھر بلواتا تھا کہ ان کی دادی ان سے ملنے آئی ہیں۔‘
کامران کے قتل کا وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیا تھا اور لاہور پولیس کو ملزمان کو گرفتار کرنے کا ٹاسک سونپا گیا تھا۔