سائنس دانوں کو ایسا طریقہ مل گیا ہے جس کی مدد سے وہ کائنات کے بالکل ابتدائی حالات کو دیکھ سکتے ہیں۔
ایک نئی تحقیق میں ابتدائی کائنات کی دھند کے پار ’دیکھنے‘ اور کائنات میں اولین ستاروں اور کہکشاؤں سے آنے والی روشنی کو دیکھنے کا طریقہ دریافت کر لیا گیا ہے۔
کائنات کی گہرائی میں دیکھنے سے سائنس دان مؤثر طریقے سے وقت میں واپس سفر کر سکتے ہیں: کائنات کے دور ترین حصوں کو دیکھنے کا مطلب وہ روشنی دیکھنا ہے جو اس کی ابتدا سے ہی آئی۔ اس روشنی کی بدولت ہم کائنات کو اس کی ابتدائی حالت میں دیکھ سکتے ہیں۔
لیکن ایسا کرنا مشکل ہے۔ اس منظر پر دھند چھائی ہوئی ہے: ہائیڈروجن کے گھنے بادلوں سمیت دوسرے سگنلز میں پیدا ہونے والا بگاڑ جو دور سے آنے والے ان سنگنلز کی راہ میں حائل ہو سکتا ہے جنہیں اب سائنس دان تلاش کر رہے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ سائنس دان بگ بینگ اور کائنات کے آغاز کے بارے میں اچھی خاصی معلومات رکھتے ہیں اور یہ کہ ستارے اپنی زندگی میں کس طرح ارتقا کرتے ہیں لیکن اس عمل کے درمیان کا وقت اب بھی بڑی حد تک پراسرار ہے۔
سائنس دان اب بھی کائنات کی اس ’پہلی روشنی‘ کے بارے میں نسبتاً بہت کم جانتے ہیں جب ستاروں اور کہکشاؤں نے روشن ہونا شروع کیا۔
اب یونیورسٹی آف کیمبرج کے محققین کا کہنا ہے کہ انہیں ایک نیا طریقہ مل گیا ہے جو انہیں اس تمام شور کے پار دیکھنے اور ان اشیا کو تلاش کرنے کے قابل بنائے گا دراصل جن کی انہیں تلاش ہے۔
اس تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے ماہرین فلکیات ان ہائیڈروجن بادلوں کے ساتھ تعامل کرتے ہوئے ابتدائی ستاروں کا مشاہدہ کر سکیں گے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ دھند میں کسی لینڈ سکیپ کے سائے کس طرح ظاہر ہوتے ہیں، سائنس دان اس عمل کو کسی لینڈ سکیپ پر کام کرنے سے تشبیہہ دیتے ہیں۔
نیا طریقہ کار وضع کرنے کے لیے سائنس دانوں نے مختلف شعبوں کی متعدد تکنیکوں کو یکجا کیا۔ اس طرح محققین کائناتی سگنلز کو ان میں ہونے والی مداخلت سے الگ کر سکتے ہیں۔ دونوں کو الگ کرتے ہوئے سائنس دان اجرام فلکی کا تخصیص کے ساتھ تجزیہ کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔
سائنس دانوں کو امید ہے کہ جب ہمیں کائناتی ہائیڈروجن کے تجزیے کے لیے ریڈیائی تجربے یا ’ریچ‘ تجربے کے پہلے نتائج حاصل ہوں گے تو بہتر مشاہدہ کیا جا سکے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تحقیق کے مرکزی مصنف کیمبرج کی کیوینڈیش لیبارٹری سے منسلک ایلوئے ڈی لیرا ایسیڈو نے کہا کہ ’جس وقت اتبدائی ستاروں کی تشکیل ہوئی تب کائنات زیادہ تر خالی تھی اور زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیئم پر مشتمل تھی۔‘
’کشش ثقل کی وجہ سے بالآخر عناصر اکٹھے ہو گئے اور جوہری فیوژن کے لیے حالات سازگار تھے۔ یہی وہ چیز ہے جس نے اولین ستارے تشکیل دیے۔ لیکن وہ نام نہاد نیوٹرل ہائیڈروجن کے بادلوں سے گھرے ہوئے تھے جو روشنی کو بہت اچھی طرح اپنے اندر سمو لیتے ہیں۔ لہذا بادلوں کی دوسری طرف روشنی کا براہ راست پتہ لگانا یا اس کا مشاہدہ کرنا مشکل ہے۔‘
یہ مشکلات اس وقت واضح ہو گئیں جب 2018 میں سائنس دانوں نے بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے کائنات میں اولین روشنی کے سوئچز کو آن ہوتے دیکھا ہو۔ لیکن ماہرین فلکیات کو اس نتیجے کی نقل تیار کرنا مشکل ہو گیا اور انہیں شبہ ہے کہ یہ نتائج دوربین میں مداخلت سے سامنے آئے ہوں گے۔
لیکن اب نئے طریقہ کار سے سائنسدان اس کا جواب ہر بار تلاش کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ڈی لیرا ایسیڈو کے بقول: ’اگر ہم اس بات کی تصدیق کر سکیں کہ اس سے پہلے کے تجربے میں ملنے والا سگنل واقعی پہلے ستاروں سے آیا تو اس کے مضمرات بہت زیادہ ہوں گے۔‘
نیا طریقہ ریچ: کائناتی ہائیڈروجن کے تجزیے کے لیے ریڈیائی تجربہ کے عنوان سے تحقیق ا’نیچر ایسٹرونومی‘ نامی جریدے میں شائع ہوئی۔
© The Independent