سائنس دانوں نے بحر اوقیانوس کے پیندے پر بظاہر انسانی ساختہ منظم سوراخوں کا ایک سلسلہ دریافت کیا ہے جس کی اصلیت ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔
سمندر پر تحقیق کرنے والے امریکی سائنسی ادارے این او اے اے کے ’اوقیانوس ایکسپلورر‘ نامی بحری جہاز پر سوار سمندری پیندے کا مطالعہ کرنے والے محققین نے کہا ہے کہ 23 جولائی کو ’بالکل سیدھ‘ میں ایک جیسے سوراخ دریافت ہوئے تھے لیکن اس سے قبل اس خطے سے ان کی موجودگی کی اطلاعات موجود تھیں۔ تاہم اب این او اے اے اوشین ایکسپلوریشن ایجنسی عوام کو اپنے نظریات پیش کرنے کے لیے مدعو کر رہی ہے کہ وہ بتائیں کہ یہ سوراخ کیسے بنے ہوں گے۔
عالمی سمندر کی تحقیق کے لیے وقف ایجنسی نے ایک فیس بک پوسٹ کہا: ’ہفتے کو اوقیانوس میں غوطہ خوری کے دوران ہم نے سمندر کی پاتال میں موجود ان سوراخوں کے کئی ذیلی خطوط کا مشاہدہ کیا۔ یہ سوراخ پہلے بھی اس خطے میں رپورٹ ہوئے ہیں لیکن ان کی اصلیت ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔‘
وفاقی ادارے نے کہا: ’جیسا کہ وہ بالکل انسانی ساختہ نظر آتے ہیں، پاتال کے سوراخوں کے اردگرد چھوٹے ڈھیروں سے ایسا لگتا ہے کہ ان کی کسی چیز سے کھدائی کی گئی ہے۔‘
ہفتے کے روز کی گئی غوطہ خوری کے دوران سائنس دانوں نے بحر اوقیانوس کے وسط میں پرتگال کے قریب ایک خود مختار علاقے ازورس کے شمال میں زیرِ آب آتش فشاں کی چوٹی کا دورہ کرتے ہوئے تقریباً تین کلومیٹر گہرائی میں سمندر کے فرش کی جانچ کی۔
اس دوران انہوں نے ان پراسرار سوراخوں کو ریکارڈ کرنے کے لیے ریموٹ سے چلنے والا کیمرہ استعمال کیا۔
یہ دریافت اوقیانوس جہاز کی ویاج ٹو دی رج 2022 کی مہم کے دوران ہوئی جس میں سائنس دان ’چارلی گِبس فریکچر‘ زون کے وسط اور ازورس سطح مرتفع کے ان گہرے پانی والے علاقوں کی تلاش اور نقشہ سازی کر رہے تھے جن کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔
این او اے اے نے کہا: ’رج 2022 مہم کے دوسرے سفر میں چوتھے غوطے کے دوران ہم نے پاتال میں سوراخوں کے کئی sublinear سیٹس کا مشاہدہ کیا۔‘
امریکی وفاقی ادارے نے فیس بک پوسٹ میں اس دریافت کی تصاویر شیئر کیں اور عوام کو اپنے نظریات پیش کرنے کی دعوت دیتے ہوئے لکھا: ’آپ کا ان (سوراخوں) کے بارے میں کیا مفروضہ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس مہم میں زیر مطالعہ علاقے میں اکثر زلزلوں کا سامنا کرنے والے وسطی بحر اوقیانوس کا رج شامل ہے جو شمال سے جنوب تک 16 ہزار کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔
این او اے اے کے مطابق اسے دنیا کا سب سے طویل زیر سمندر پہاڑی سلسلہ اور زمین پر سب سے نمایاں ارضیاتی خصوصیات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس رج کا زیادہ تر حصہ پانی میں ہے اور بڑی حد تک اسے دریافت نہیں کیا گیا۔
اس ریسرچ مشن میں شامل سائنس دان وسط بحر اوقیانوس کے رج (ازورس کے شمال) اور ازورس سطح مرتفع کے علاقے کو دریافت کرنے کے لیے ریموٹ سے چلنے والے گاڑیوں کے نظام کا استعمال کرتے ہوئے نقشہ سازی کے آپریشن اور غوطہ خوری کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ مشن وسط بحر اوقیانوس رج، ازورس سطح مرتفع اور چارلی گِبس فریکچر زون کے ساتھ گہرے سمندر میں مرجان اور سپنج کمیونٹیز کی اقسام اور وسعت کو سمجھنے کے لیے ڈیٹا حاصل کرے گا۔
این او اے اے نے ایک بیان میں کہا: ’حالیہ تحقیق نے سمندری مرجان اور سپنج کے بارے میں ہماری معلومات اور ان کو بیان کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن ان کی تقسیم، اقسام، تولید اور مزاحمت کے بارے میں جاننے کے لیے ابھی بھی بہت کچھ جاننا باقی ہے، خاص طور پر غیر دریافت شدہ اور کم معلومات والے والے گہرے پانی کے علاقوں میں جہاں ہم تحقیق کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اگلے مہینے ان کی نقشہ سازی کے مشن کے دوران ازورس سطح مرتفع اور وسط بحر اوقیانوس رج پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
این او اے اے نے کہا: ’غوطہ خوری کے دوران ہم گہرے سمندر میں مرجان اور سپنج کی رہائش گاہوں، ممکنہ ہائیڈرو تھرمل وینٹ اور معدوم پولی میٹالک سلفائیڈ سسٹم، فریکچر اینڈ رفٹ زونز اور پانی کے کالم کی تلاش کی امید کرتے ہیں۔‘
© The Independent