پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنے اراکین اسمبلی کے استعفوں کی مرحلہ وار منظوری کے خلاف سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے، جس پر سماعت کل (بروز منگل) کو ہوگی۔
پی ٹی آئی رہنما اسد عمر کی جانب سے پیر کو جمع کروائی گئی درخواست میں استدعا کی گئی کہ سپیکر قومی اسمبلی کی ذمہ داری ہے کہ مرحلہ وار کے بجائے بغیر تاخیر کے اراکین کے استعفوں کو الیکشن کمیشن بھجوائے اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ تمام 123 اراکین کو بغیر تاخیر کے ایک ساتھ ڈی نوٹیفائی کرے۔
درخواست دائر کرنے کے بعد اسد عمر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’11 اراکین کے استعفے منظور کرنے کا جو تماشا لگایا ہے، ہم اس کے خلاف عدالت آئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’11 اپریل کو اسمبلی کے فلور پر ہمارے 125 لوگوں نے کہا کہ ہم نے استعفے دے دئیے، لیکن الیکشن کمیشن کے پاس کیا اختیار تھا کہ وہ تین ماہ قبل سارے استعفے منظور نہ کرے؟‘
پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ ’الیکشن کمیشن کے خلاف ریفرنس دائر کیا جا رہا ہے کیونکہ وہ سیاسی فریق بن چکا ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’دو صوبائی اسمبلیوں سے قرارداد پاس ہو چکی ہے کہ یہ الیکشن کمیشن منظور نہیں۔‘
پی ٹی آئی کی درخواست میں ہے کیا؟
پی ٹی آئی کی جانب سے جمع کروائی گئی درخواست میں سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف، الیکشن کمیشن اور وفاق کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ ’سازش اور بیرونی مداخلت کے باعث حکومتی تبدیلی کے بعد تحریک انصاف جماعت نے اصولی فیصلہ کرتے ہوئے 11 اپریل کو قومی اسمبلی سے استعفے دیے تھے اور جماعت کے نائب پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے اسمبلی ہال میں سب کے سامنے اراکین اسمبلی کے استعفوں کے بارے اعلان کیا تھا۔
’اس کے بعد تحریک انصاف کے 125 اراکین اسمبلی نے استعفے پیش کیے اور 13 اپریل کو ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے 125 میں سے 123 استعفے منظور کیے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’موجودہ سپیکر کے پاس ہمارے منظور شدہ استعفوں کے معاملے پر تاخیر کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ سپیکر نے بدنیتی کی وجہ سے استعفوں کو الیکشن کمیشن بھیجنے میں تاخیر سے کام لیا اور سیاسی فائدے کے لیے استعفوں کی تصدیق کا عمل ازسرنو شروع کیا۔‘
درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ ’آئین کے آرٹیکل 64 کے تحت انکوائری سپیکر کا کام نہیں بلکہ سپیکر کا یہ فرض ہے کہ جب کوئی رکن اسمبلی استعفیٰ دے تو وہ فوری الیکشن کو بھجوائے، لہٰذا اراکین کے استعفوں کے بعد ان حلقوں میں عوامی نمائندگی نہیں رہی۔‘
درخواست میں کہا گیا کہ ’سپیکر نے استعفوں کی تصدیق کا عمل قومی اسمبلی کے رول 43 کے تحت کیا، جس کا اطلاق یہاں اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ کسی رکن اسمبلی نے استعفوں پر اعتراض نہیں کیا تھا جبکہ استعفوں کے بعد سپیکر پابند تھے کہ 60 روز میں ان خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کروائے جاتے۔‘
مزید کہا گیا کہ ’سپیکر کی جانب سے دیے گئے استعفوں پر دوبارہ تصدیق، فوری الیکشن کمیشن کو نہ بھجوانا اور اراکین سے استعفے واپس لینے کی استدعا غیر آئینی اور غیر قانونی عمل ہے۔‘
پی ٹی آئی نے اپنی درخواست میں سپیکر کی جانب سے چند اراکین کے استعفے مرحلہ وار منظور کر کے الیکشن کمیشن بھجوانے کو ’تفریقی عمل‘ قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو بھی موجودہ حکومت کا ’سیاسی ونگ‘ کہا۔
درخواست کے مطابق: ’الیکشن کمیشن بھی اپنی آئینی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہا ہے۔‘
استعفے کب منظور ہوئے؟
29 جولائی کو سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کے 11 اراکین اسمبلی کے استعفے قبول کر کے نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا۔
جن اراکین کے استعفے منظور کیے گئے ان میں فضل محمد خان، شوکت علی، فخر زمان، فرخ حبیب، اعجاز شاہ، اکرم چیمہ، جمیل احمد خان، عبدالشکور شاد، شیریں مزاری اور شاندانہ گلزار شامل تھیں۔
اسی روز الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے ان 11 اراکین قومی اسمبلی کو ڈی نوٹیفائی کر دیا تھا۔