سائنس دانوں نے اعضا اور ٹشوز کو تحفظ فراہم کرنے والے سیال مادے پر مبنی نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے موت کے ایک گھنٹے بعد مرے ہوئے سوروں میں خون کی گردش اور دیگر خلیوں کا نظام بحال کر دیا۔
سائنسی جریدے نیچر میں بدھ کو اس تحقیق کے نتائج شائع ہوئے جس کے مطابق اس پیش رفت سے سرجری کے دوران انسانی اعضا کو محفوظ بنانے اور مزید ٹرانسپلانٹس کو ممکن بنانے میں مدد مل سکتی ہیں۔
تاہم امریکہ کے ییل سکول آف میڈیسن کے محققین سمیت تحقیق میں شامل سائنس دانوں کو اس عمل کے بعد دماغ کے معمول کے کام سے وابستہ کسی بھی قسم کی برقی دماغی سرگرمی کا سراغ نہیں ملا جس سے یہ تحقیق زندگی اور موت کے بارے میں روایتی نظریے کو الجھا دیتی ہے۔
نیویارک یونیورسٹی گراسمین سکول آف میڈیسن میں کریٹیکل کیئر اینڈ ریسسیٹیشن ریسرچ کے ڈائریکٹر سیم پارنیا نے کہا: ’یہ مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ موت کے حوالے سے ہمارا سماجی نظریہ یعنی زندگی کا مکمل خاتمہ سائنسی اعتبار سے درست نہیں ہے۔‘
ڈاکٹر پارنیا، جو اس تحقیق کا حصہ نہیں تھے، کا مزید کہنا ہے کہ ’اس کے برعکس سائنسی طور پر موت ایک حیاتیاتی عمل ہے اور موت واقع ہونے کے گھنٹوں بعد بھی یہ قابل علاج ہے اور زندگی کو واپس لوٹایا سکتا ہے۔‘
موت کے وقت دل کی آخری دھڑکن بند ہونے کے چند منٹ بعد خون کی گردش رکنا شروع ہو جاتی ہے اور جسم کے خلیے آکسیجن کی کمی کی وجہ سے مرنا شروع ہو جاتے ہیں اور ٹشوز اور اعضا کو متاثر کرنے والی کیمیائی تبدیلیاں شروع ہو جاتی ہیں۔
تاہم نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر اور مستقل طور پر خلیوں کی موت اتنی جلدی نہیں ہوتی۔
ییل سکول آف میڈیسن سے وابستہ اس مطالعے کی قیادت کرنے والے مصنف ڈیوڈ اینڈریجیوک نے کہا: ’تمام خلیے فوری طور پر نہیں مرتے بلکہ یہ طویل سلسلہ وار مرحلہ ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں آپ مداخلت کر سکتے ہیں، اسے روک سکتے ہیں اور خلیوں کے کچھ فنکشنز کو بحال کر سکتے ہیں۔‘
تحقیق میں سائنس دانوں نے پرفیوژن ڈیوائس پر مشتمل ایک نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جو سرجری کے دوران مصنوعی طور پر دل اور پھیپھڑوں کا کام کرتی ہے۔ یہ ایک تجرباتی سیال پر مشتمل مرکبات ہیں جو خلیوں کی صحت کو بہتر رکھ سکتے ہیں اور جس نے مرے ہوئے سوروں کے جسم کو سوزش سے محفوظ رکھا۔
انہوں نے بے ہوش سوروں کو مصنوعی طور پر دل کے دورے کے ذریعے مار ڈالا اور موت کے ایک گھنٹے بعد OrganEx نامی نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ان پر اس عمل کا تجربہ کیا۔
محققین کو معلوم ہوا کہ سور کے دل، جگر اور گردے سمیت جسم کے بہت سے حصوں میں اہم خلیے فعال تھے اور یہ کہ OrganEx کے استعمال کے چھ گھنٹے بعد کچھ اعضا نے کام کرنا شروع کر دیا۔
اس تحقیق میں دل میں برقی سرگرمی کے شواہد بھی ملے اور اس ڈیوائس کے استعمال کے بعد دل کے سکڑنے کی صلاحیت کو برقرار رکھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ییل یونیورسٹی میں تقابلی طب، جینیات، اور نفسیات کے پروفیسر اور مطالعہ کے شریک مصنف نیند سیستان نے کہا: ’ہم خون کی پورے جسم میں گردش کو بحال کرنے میں بھی کامیاب رہے جس نے ہمیں حیران کر دیا۔‘
تحقیق کے ایک اور مصنف زوونیمیر ورسلجا نے مزید کہا کہ ’مائیکروسکوپ میں دیکھنے کے بعد ایک زندہ اور صحت مند عضو اور موت کے بعد OrganEx ٹیکنالوجی سے علاج کیے جانے والے عضو کے درمیان فرق بتانا مشکل تھا۔‘
سائنس دانوں نے کہا کہ وہ اس عمل سے گزرنے والے جانوروں کا جائزہ لینے کے دوران مرے ہوئے سوروں کے سر اور گردن کے اردگرد غیر ارادی اور بے ساختہ عضلاتی حرکات دیکھ کر خاص طور پر حیران رہ گئے۔
تاہم محققین نے کہا کہ بحال شدہ فنکشنز کو سمجھنے کے لیے اضافی مطالعات ضروری ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوسرے سائنس دانوں اور حیاتیاتی ماہرین کو بھی اس تحقیق کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر پارنیا نے کہا: ’یہ واقعی ایک قابل ذکر اور ناقابل یقین حد تک اہم مطالعہ ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ موت کے بعد ممالیہ جانوروں (بشمول انسان) کے اعضا مثال کے طور پر دماغ کے خلیے کئی گھنٹوں تک نہیں مرتے۔ یہ پوسٹ مارٹم کی مدت میں زندہ رہتے ہیں۔‘
اگرچہ یہ تحقیق ہر سال اعضا کی پیوند کاری کے ذریعے زیادہ سے زیادہ انسانی جانوں کو بچانے کا باعث بن سکتی ہے لیکن پروفیسر نے کہا کہ نیا طریقہ مردہ لوگوں کے اعضا کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے لیکن صرف ان لوگوں کے لیے جن کی موت کی بنیادی وجہ قابل علاج ہے۔
انہوں نے وضاحت کی: ’آج ان میں وہ کھلاڑی بھی شامل ہوں گے جو دل کی خرابی سے اچانک مر جاتے ہیں، وہ لوگ جو ڈوبنے سے مرتے ہیں، ہارٹ اٹیک یا صدمے سے یا جن کی (حادثات میں) زیادہ خون بہنے سے موت واقع ہو جائے۔‘
انہوں نے کہا: ’یہ ٹیکنالوجی ڈاکٹرز کو (مرنے والوں) کی بنیادی حالت کو ٹھیک رکھنے کے لیے وقت فراہم کرے گا (جیسے دل میں خون کی ایک بلاک شدہ شریان جس کی وجہ سے ہارٹ اٹیک اور موت واقع ہوئی تھی یا پھٹی ہوئی خون کی شریان کی مرمت جس کی وجہ سے حادثے کے بعد بڑے پیمانے پر خون بہنے سے موت واقع ہوئی تھی۔)‘
ڈاکٹر پارنیا نے مزید کہا: ’اعضا کے فنکشن کو بحال کریں اور ایسے لوگوں کو موت کے کئی گھنٹے بعد دوبارہ زندہ کریں۔‘
محققین کا کہنا ہے کہ نتائج سے کئی اخلاقی سوالات بھی جنم لیتے ہیں کہ کب کسی شخص کو حتمی طور پر مردہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے فیوچر آف ہیومینٹی انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ریسرچ فیلو اینڈرس سینڈ برگ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’اس بات کا تعین کرنے کے لیے ایک حل طلب اخلاقی مسئلہ ہے کہ جب زندگی کو جاری رکھنے کے لیے بنیادی مدد ہی بے کار ہو جائے اور جیسے جیسے ٹیکنالوجی کی ترقی ہوتی ہے، ہم کسی شخص کو زندگی کی جانب پوری طرح سے لوٹانے سے قاصر ہونے کے باوجود صرف اس کے جسم کو زندہ رکھنے کے مزید طریقے تلاش کر سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر سینڈ برگ، جو اس تحقیق میں بھی شامل نہیں تھے، نے مزید کہا: ’مزید علاج کب بے کار ہو جائے اور لوگوں کو کس طرح موت کی وادی سے واپس لانا ہے، اس کے معیار کو تلاش کرنے کے لیے بہت زیادہ کام باقی ہے۔‘
© The Independent