دوستو، آج سے تین سال پہلے ہم آرگن ڈونر بنے تھے۔ ہم عموماً اپنے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے چند قریبی لوگوں سے مشورہ ضرور کرتے ہیں لیکن یہ فیصلہ ہم نے خود کیا تھا۔
ایک شام کراچی کے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کی ویب سائٹ کھولی اور بعد از مرگ اپنے جسمانی اعضا عطیہ کرنے کا فارم پُر کردیا۔
کیوں کیا؟ اول، ہمارا جسم ہماری مرضی۔ دوم، اس سے کچھ ماہ پہلے ہم ایک خاتون رشتے دار کی عیادت کے لیے ہسپتال گئے تھے۔ ہمارے ساتھ ہماری چھوٹی بہن بھی تھیں۔ ہسپتال کے مطلوبہ فلور پر جاتے ہوئے ہماری بہن کو اپنی سکول کی ایک دوست نظر آ گئی۔ اس کے دادا ہسپتال میں داخل تھے۔ ان کا گردہ ناکارہ ہو چکا تھا۔ ان کے خاندان کے کچھ افراد کے ٹیسٹ کیے جا رہے تھے تاکہ انہیں گردہ دے کر ان کی جان بچائی جا سکے۔ ان کے خاندان کی اس وقت کی پریشانی نے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔
ہم نے گھر آ کر تحقیق کی تو ہمیں پتہ چلا کہ پاکستان میں ہر سال ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد اعضا کے ناکارہ ہونے سے انتقال کر جاتے ہیں۔ ان میں گردے ناکارہ ہونے کے 40 ہزار، جگر کے 70 ہزار اور دل کے 15 ہزار مریض شامل ہیں۔
ان لوگوں کو بر وقت صحت مند اعضا کی پیوندکاری کرکے بچایا جا سکتا ہے لیکن پیوندکاری کے لیے اعضا کہاں سے لائیں؟ پاکستان میں جسمانی اعضا کی عطیہ کاری کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان میں دو طرح کی آرگن ڈونیشن ہوتی ہے۔ ایک قبل از مرگ، دوسری بعد از مرگ۔
قبل از مرگ اعضا صرف جینیاتی یا قانونی رشتے داروں کی زندگی بچانے کے لیے عطیہ کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے لیے حکومت کے بنائے ہوئے اداروں سے اجازت لینا ضروری ہے۔ اگر قریبی رشتے داروں کا عضو مریض کے ساتھ میچ نہ کر رہا ہو تو حکومتی کمیٹی غیر رشتے دار سے بھی عطیہ لینے کی اجازت دے سکتی ہے۔
تاہم، ہر صورت میں وہ عضو عطیہ کرنے والے کی مرضی ضرور دیکھتے ہیں۔ قانون کے مطابق کسی بھی فرد کو اپنا کوئی بھی عضو عطیہ کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
بعد از مرگ اعضا کسی کو بھی عطیہ کیے جا سکتے ہیں۔
ہمیں چند مزید کلکس کے بعد کچھ اداروں کا پتہ چلا جن میں سے ایک سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن تھا۔ ہم نے ان کی ویب سائٹ پر اپنا نام بعد از مرگ اعضا عطیہ کرنے والوں کے طور پر درج کروا دیا۔
فارم پُر کرنے کے کچھ ہفتوں بعد ہماری سالگرہ تھی۔ ہم تحائف کی امید تو رکھتے ہیں لیکن ہماری امیدیں کم ہی پوری ہوتی ہیں۔ خیر، یہ قصہ پھر سہی۔ اس دن ہمیں اپنا آرگن ڈونر کا کارڈ بذریعہ ڈاک موصول ہوا۔ ہمیں اس پَل جو خوشی محسوس ہوئی وہ ہم الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کارڈ تو آگیا۔ ہم آرگن ڈونر بھی بن گئے لیکن یہ ہو گا کیسے؟ ہماری وفات کے بعد ہمارے گھر والے ہماری خواہش پوری کرنے کے لیے کہاں جائیں گے؟
ہمیں پتہ چلا کہ پاکستان میں بعد از مرگ اپنے اعضا عطیہ کرنے کے خواہش مند افراد ایسا صرف اسی صورت میں کرسکتے ہیں جب ان کی موت ہسپتال میں وینٹی لیٹر پر ہو۔
دماغی وفات کے بعد ڈاکٹر مریض کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس کے جسم سے اعضا نکالتے ہیں اور ان کی کسی ضرورت مند کے جسم میں پیوند کاری کر دیتے ہیں۔
گھر پر وفات ہونے کی صورت میں اعضا کارآمد نہیں رہتے اور انہیں عطیے میں نہیں دیا جا سکتا۔
ہم نے کچھ روز میں لاہور میں واقع پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کی ویب سائٹ پر بھی خود کو بطور آرگن ڈونر رجسٹر کروا لیا تھا۔
ایک فرد اپنے دل، جگر، گردے، آنتیں، پھیپھڑے، لبلبہ اور قرنیہ عطیہ کر سکتا ہے۔ اس کے یہ اعضا ایسے مریضوں میں ٹرانسپلانٹ کیے جا سکتے ہیں جن کے اپنے اعضا ناکارہ ہو چکے ہوں۔ بر وقت ٹرانسپلانٹ سے ان کی زندگی بچائی جا سکتی ہے۔
سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے مطابق پاکستان میں اب تک صرف پانچ افراد بعد ازمرگ اپنے اعضا عطیہ کر چکے ہیں جبکہ دو افراد جن میں ہم سب کے پیارے عبدالستار ایدھی صاحب بھی شامل ہیں، نے اپنے قرنیہ عطیہ کیے ہیں۔
اعضا عطیہ کرنے کے لیے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ تمام عمر کے افراد اپنے اعضا اور ٹشوز عطیہ کر سکتے ہیں۔
بعض افراد سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا ان کی مذہبی تعلیمات کے خلاف ہو سکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کی ویب سائٹ کے مطابق تمام بڑے مذاہب بشمول اسلام میں اعضا کی عطیہ کاری کی اجازت دی گئی ہے۔
ہماری طرح سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے ساتھ 10383 لوگ بعد از مرگ اعضا کی عطیہ کاری کے لیے رجسٹرڈ ہیں۔ آپ بھی چاہیں تو ان کی ویب سائٹ پر جا کر اپنی رجسٹریشن کروا سکتے ہیں اور بہت سی انسانی جانوں کو بچانے کا سبب بن سکتے ہیں۔