بہت سے لوگوں کی خواہش اور توقع تھی کہ ویمن فٹ بال ورلڈ کپ کی بدولت ویمن فٹ بال دنیا کا بڑا کھیل بن جائے گا۔ اس سلسلے میں گذشتہ ماہ ملنے والی کامیابی واقعی ایک کامیابی تھی اور اس کا انحصار کھیل کے اگلے مرحلے پر ہوگا۔ ٹورنامنٹ میں فتح حاصل کرکے امریکی ٹیم نے گولڈن بال جیتا۔
کیا شائقین میں ویمن فٹ بال کے لیے دلچسپی برقرار رہے گی؟ کیا شائقین کی تعداد میں اضافہ ہوگا؟ اور سب سے اہم بات کہ کیا فٹ بال کلبز، ایسوسی ایشنز اور حکام خواتین کے کھیل میں سرمایہ لگائیں گے؟
ان سوالات کا جواب ویمن ورلڈ کپ فٹ بال کے فائنل کے فورا بعد تو نہیں دیا جا سکتا کیونکہ فی الحال ٹورنامنٹ کو صرف 31 دن جاری رہنے والے میچوں کی بنیاد پر ہی جانچا جا سکتا ہے۔ اتوار کو ختم ہونے والے ٹورنامنٹ میں امریکی ٹیم فاتح رہی۔ دیانت داری سے جائزہ لیا جائے تو زیادہ تکلیف دہ اور مایوس کن پہلوؤں میں سے بعض کو نظر انداز کرنا غلط ہوگا۔
ٹورنامنٹ کے دوران شائقین کی تعداد بہت کم تھی یا کم از کم توقع سے کم تھی۔ فیفا کی جانب سے ٹکٹوں کی فروخت کے اشہتارات میں ظاہر کی گئی توقعات کے مطابق ریکارڈ توڑے جانے تھے لیکن ٹورنامنٹ شروع ہونے کے بعد پانچ روز تک آدھے خالی سٹیڈیمز کی وجہ سے منتظمین نے مایوس کن انداز میں ان پیش گوئیوں پر نظرثانی کی۔
آخر میں شائقین کی 11 لاکھ 30 ہزار کی تعداد نہ صرف چار سال قبل کینیڈا میں ہونے والے ورلڈ کپ کے شائقین کی تعداد سے کم تھی بلکہ 1999 اور 2007 کے ٹورنامنٹس کے مقابلے میں بھی کم رہی۔ شائقین کی تعداد میں کمی بیشی کا 1991 سے جاری رجحان اس سال بھی برقرار رہا۔
ٹورنامنٹ کے دوران ٹیموں کے معاملے میں عدم مطابقت بھی دیکھنے میں آئی۔ اس حوالے سے تھائی لینڈ کی ٹیم سب سے زیادہ شہرت رکھتی ہے، لیکن گولز کے فرق کے کالم میں جمیکا کی ٹیم بھی منفی دو اعداد کے ساتھ گروپ میں بہت نیچے رہی۔
جنوبی افریقہ، چلی اور ارجنٹائن کی ٹیموں کی کارکردگی بہتر تھی لیکن انہیں مقابلے کے لیے بہت ہاتھ پیر مارنے پڑے۔ تاہم یہ ٹیمیں کم وسائل اور زیادہ تر نیم پیشہ ور اور شوقیہ کھلاڑیوں پر مشتمل ہونے کے باوجود کم ازکم ٹورنامنٹ میں موجود ضرور تھیں۔ یہ ایسی ٹیمیں ہیں جن پر تنقید کی ضرورت بھی نہیں۔
ٹورنامنٹ میں وہ ملک کہاں تھے جو اپنی مردوں پر مشتمل فٹ بال ٹیموں کو تو بہت زیادہ فنڈ دیتے ہیں لیکن خواتین کے ٹورنامنٹ میں کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔
میکسیکو اور یورو گوئے کہاں تھے؟ بلجیئم اور پرتگال کے بارے میں کیا کہیں گے۔ گذشتہ موسم گرما کے ورلڈ کپ میں کروشیا کی مردوں کی ٹیم دوسرے نمبر پر تھی لیکن اس کی خواتین ٹیم کی کارکردگی کوالیفائنگ گروپ میں بہت ناقص تھی۔ ان تمام ٹیموں میں سے صرف ایک ملک کی ٹیم فائنل میں پہنچی تھی۔
اور اس کے بعد نتیجے کی پیش گوئی کی جا سکتی تھی۔ ٹورنامنٹ کے اختتام کی جانب بڑھتے ہوئے اس میں شریک یورپی ممالک کی ٹیموں کے درمیان خلیج کے بارے میں بحث اس وقت اپنے عروج کو پہنچ گئی جب آٹھ کوارٹر فائنلز میں سے سات میں بحر اوقیانوس کے اس طرف واقع ممالک کی ٹیمیں پہنچیں۔
تاہم اتوار کو یہ بحث اس وقت کھوکھلی ثابت ہوئی جب امریکی ٹیم عالمی چیمپیئن کا اعزاز اپنے پاس رکھنے میں کامیاب ہو گئی جو اس کا حق تھا۔ امریکی ٹیم اب تک ویمن ورلڈ کپ کے آدھے مقابلے جیت چکی ہے۔ امریکی ٹیم ٹورنامنٹس میں کبھی تیسرے نمبر سے نیچے نہیں گئی۔
اگر یہ ویمن فٹ بال کی دنیا میں نئے دور کا آغاز تھا تو یہ اس سے پہلے کے نئے دور سے بہت ملتا جلتا تھا۔ لیکن شاید شائقین کے معاملے میں فرق فرانس کی سطح تک تھا، جہاں ورلڈ کپ کھیلا گیا۔ یقیناً سٹیڈیم میں شائقین کی مایوس کن تعداد کا معاملہ ٹیلی ویژن دیکھنے والوں کی ریکارڈ توڑ تعداد کی بدولت قدرے دب گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانیہ میں ویمن فٹ بال کپ کے مقابلے دیکھنے والوں کی تعداد کی خوب تشہیر ہوئی لیکن امریکہ، برازیل، جرمنی، اٹلی اور چین میں تو ریکارڈ ٹوٹے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ایک ارب کے قریب افراد نے ورلڈ کپ دیکھا۔
یہ کہنا جائز ہو گا کہ ٹورنامنٹ کے دوران کئی شائقین کو ایک نام سب سے بڑھ کر یاد رہے گا اور وہ نام ہے خواتین کی امریکی فٹ بال ٹیم کی کپتان میگن ریپنو کا، جو فٹ بال کی دنیا کا بڑا نام اور روایت شکن بن کر سامنے آئی ہیں۔
وہ اس وقت دنیا بھر میں نہ صرف فٹ بال کی بے حد جانی پہچانی خاتون کھلاڑی ہیں بلکہ ایک ایسی شخصیت بھی ہیں جو فٹ بال کی پہچان میں اضافے کی لڑائی میں قائدانہ کردار ادا کرسکتی ہیں۔
انہوں نے ٹورنامنٹ کے دوران پلیٹ فارم کو ہم جنس پرستوں اورخواجہ سراؤں کے مسائل پر بحث، ذرائع ابلاغ میں نمائندگی اور بلاشبہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے فٹ بال ٹیم کو وائٹ ہاؤس کے دورے کی دعوت پانے کے لیے استعمال کیا۔
میگن ریپینو اپنی بہتر پہچان کو کس طرح استعمال کرتی ہیں—ان کی موجودہ ساکھ اپنی پیشروؤں میں سے ایک، سنجیدہ رہنے والی میا ہم کے مساوی یا اس سے بہتر ہے۔ شاید دوسری کسی بھی کھلاڑی کے مقابلے میں میگن ریپیو خواتین کی فٹ بال ٹیم کی ساکھ پر زیادہ اثر انداز ہوں گی اور اس کا ان کے کھیل میں کارکردگی سے بھی کوئی تعلق نہیں۔
میگن ریپینو نے گذشتہ ماہ شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا لیکن ٹورنامنٹ کور کرنے والے صحافیوں سے پوچھیں کہ کیا وہ فرانس میں کھیلنے والی سب سے بہترین کھلاڑی تھیں؟ جواب ملی جلی رائے کی شکل میں سامنے آئے گا۔
اس رپورٹر کی عاجزانہ رائے میں وہ شاید بہترین کھلاڑی نہیں لیکن اس سوال پر کیا کہ وہ ٹورنامنٹ کی بہترین کھلاڑی ہیں؟ جواب ہوگا، بلاشبہ۔
تاہم جیسا کہ میگن ریپینو خود بھی تقریباً یقین کے ساتھ کہیں گی کہ مردوں اور خواتین کے کھیلوں کے درمیان صنفی مساوات کے لیے جدوجہد کرنے والے لوگ انفرادی سطح کے بجائے اجتماعی طور پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اتوار کو میچ کے بعد ریپینو نے صرف امریکی نہیں بلکہ تمام کھلاڑیوں کی بات کی۔
معاوضے کے بارے میں میگن ریپینو، ان کی ٹیم میں شامل کھلاڑیوں اور مردوں کی فٹ بال ٹیم کے درمیان یہ جھگڑا ہے۔ اس سلسلے میں جو بھی پیش رفت ہو وہ قابل احساس اور قابل پیمائش ہونی چاہیے۔
ویمن ورلڈ کپ کے موقعے پر کھیلوں کے حکام سے مساوی معاوضے کا بھرپور مطالبہ کیا گیا۔ ٹورنامنٹ میں خاتون کھلاڑیوں کی کارکردگی اس مطالبے کے حق میں گواہی تھی۔
فیفا اس مطالبے کو نظر انداز کر سکتا ہے اور شاید وہ کرے بھی۔ احتجاج کو امریکہ کا اندرونی معاملہ قرار دے دیا جائے اور اس حقیقت کو بھی نظر انداز کر دیا جائے کہ فیفا کے صدر کو کیوں ہدف بنایا گیا؟ لیکن امریکہ میں خواتین ٹیم کے فتح کے جشن کے موقعے پر فٹ بال حکام کو اپنے ہزاروں سرپرستوں کو نظرانداز کرنا کہیں مشکل ہو گا۔
وہ یہ اصرار نہیں کرسکتے کہ جتنا ان کے پاس ہے اتنا وہ معاوضہ دیتے ہیں۔
ویمن فٹ بال ورلڈ کپ خواتین کے فٹ بال کھیل کو راتوں رات کبھی تبدیل نہیں کرے گا لیکن اس صورت میں کہ ٹورنامنٹ میں خاتون کھلاڑیوں کی سب سے بڑی کامیابی جسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا جائے، انہیں مردوں کے برابر معاوضہ دلوانے میں کامیاب ہو جائے گی۔اسی صورت میں اسے کامیابی کہا جائے گا۔
© The Independent