کراچی سے تقریباً دو سو کلومیٹر کے فاصلے پر بھٹ شاہ شہر میں سندھ کے صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کا مزار واقع ہے۔ جہاں شاہ عبدالطیف کی زندگی میں شروع ہونے والی محفل سماع کا سلسلہ گذشتہ تین سو سالوں سے بغیر کسی ناغے کے جاری ہے۔
یہ محفل سماع شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مزار کے صحن میں روزانہ شام کو ہوتی ہے۔ جہاں بھٹائی کے راگی جو خود کو فقیر کہلاتے ہیں، شاہ کی شاعری کو خود شاہ بھٹائی کے ایجاد کردہ پانچ تاروں والے ساز طنبورہ پر مخصوص انداز میں گاتے ہیں۔
شاہ کی شاعری کو گانے والے راگی فقیر مرد ہیں، مگر اب کچھ نوجوان خواتیں بھی مزار کے صحن میں موجود مخصوص جگہ پر مرد راگیوں کی جگہ بیٹھ کر بھٹائی کی شاعری کو گانے کا عزم رکھتی ہیں۔
غلام سکینہ اور ان کی بڑی بہن صابرہ نے اپنی دوستوں کے ساتھ ایک گروپ تشکیل دیا ہے اور یہ نوجوان خواتیں راگی خود کو شاہ کی شاعری میں رومانوی داستانوں کے خواتین کرداروں سے تشبیہ دیتی ہیں جنھیں سورمیاں کہا جاتا ہے۔
شاہ عبدالطیف بھٹائی کے کلام کو ’شاہ جو رسالو‘ کہا جاتا ہے جو 30 سُروں پر مشتمل ہے۔ جن میں سات سُر سورمیوں (سندھی زبان میں سورمی بہادر خاتون کو کہا جاتا ہے) کے نام سے منسوب ہیں۔ یہ رومانوی داستانوں کے خواتیں کردار ماروی، مومل، سسئی، سوہنی، نوری، سورٹھ اور لیلاں ہیں، جن کے لازوال عشق، محبوب سے بچھڑنے کا درد جھیلنے اور محبت میں تڑپنے اور محبوب سے ملنے کے لیے کی گئی جدوجہد کو بھٹائی نے اپنی شاعری میں سراہا ہے۔
غلام سکینہ اور صابرہ سمیت پانچ راگی خواتین گروپ میں شامل ہو چکی ہیں اور اب ان کو دو خواتین کی تلاش ہے۔ جب گروپ میں سات خواتین راگی ہو جائیں گی تو وہ ہر ایک راگی خاتون کو شاہ کی سورمیوں کا نام دیں گی اور وہ مرد راگیوں کی طرح بھٹائی کے مزار کے آنگن میں راگ گانا شروع کریں گے۔