پچھلے پندرہ بیس برس سے بھارتی پنجابی سینما نے نہ صرف مجھے بلکہ دیہی پنجاب کے بیشتر علاقے کو اپنے سحر میں جکڑا لیا ہے۔
ملکِ عزیز کا پنجابی سینما تو کب کا آخری ہچکی لے چکا مگر جب بھی میرا اپنے گاؤں جانا ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں آج بھی پنجابی فلمیں بڑے شوق سے دیکھی جاتی ہیں، لڑکے بالے مکالمے یاد کیے پھرتے ہیں۔ مگر یہ پنجابی فلمیں پاکستانی نہیں بلکہ مشرقی پنجاب (بھارت) کی فلمیں ہیں۔
بھارتی پنجابی فلموں کا کاروبار اور مقبولیت روز افزوں بڑھ رہی ہے۔ تکنیک اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے یہ فلمیں اب بالی وڈ کے معیار کو چھو رہی ہیں بلکہ اب تو اردو فلموں میں بھی پنجابی کا تڑکا کہیں نہ کہیں لگا دیا جاتا ہے۔ بڑے پردے پر چلنے والی فلمیں ’ربّ دا ریڈیو،‘ ’لونگ لاچی،‘ ’بمبو کاٹ،‘ ’منجی بسترے‘ اور ’انگریج‘ ایک طرح کا شاہکار ہیں۔ ان فلموں میں کوئی ’ایٹم سانگ‘ نہیں ہے مگر یہ سپر ہٹ ہیں۔
میرا گاؤں تو بہت بدل گیا ہے، نئے مکینوں نے بسیرا کر لیا ہے، کچی اینٹوں کی جگہ پکّی اینٹوں نے سنبھال لی ہے، پگڈنڈی کو پختہ سڑک نے ڈھانپ لیا ہے۔ کنویں ناپید ہو چکے ہیں۔ سرسبز لہلہاتے کھیتوں کے بیچ، مٹی کے بطن سے پانی سینچتے ٹیوب ویل چل رہے ہیں، گو کہ ہر طرف جدت ہی جدت کا دور دورہ ہے مگر مشرقی پنجاب کی فلم انڈسٹری نے کمال کر دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قدیم اور جدید پنجاب کی ایسی عکاسی کی جارہی ہے کہ دیکھنے والا عش عش کر اُٹھے۔ پنجاب کا بٹوارے سے قبل اور بعد کا منظرنامہ مستنصر حسین تارڑ کے ناول ’خس و خاشاک زمانے‘ میں ملتا ہے یا پھر مشرقی پنجاب کی فلموں میں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ بچپن میں سب سے پہلے سلطان راہی کی کوئی پنجابی فلم دیکھی تھی۔ میلے ٹھیلے لگتے تو ’کچی ٹاکی‘ پر فلم دکھائی جاتی۔ ’کچی ٹاکی‘ کو آج کا پروجیکٹر یا چلتا پھرتا سینما کہہ لیجیے۔
دو بانس زمین پر گاڑے جاتے اور اوران کے ساتھ سفید کپڑا باندھ دیا جاتا، بجلی تو تھی نہیں لہٰذا یہ کام ٹریکٹر کے انجن یا بیٹریز سے لیا جاتا۔ روشنی سفید پردے پر پڑتی اور فلم چلنے لگتی۔ یہ سینما کھلے میدان میں لگتا اور لوگ اسے دیکھنے کے لیے بیس بیس میل کا سفر طے کیا کرتے۔
اُس زمانے میں ہماری پنجابی فلم کا معیار کیا تھا، اس بحث کو پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں مگر لوگ جس طرح فلم دیکھنے کے لیے جوق در جوق آتے، ایسا ہجوم اور جوش و خروش پھر کبھی دیکھنے کو ملا۔ جب وی سی آر آیا تو سہ ماہی یا چھ ماہی، اسے بھاڑے پر لانے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ وہ سماں بھی کسی میلے سے کم نہ ہوتا۔ زیادہ تر فلمیں پنجابی ہوتی اور ’ہیر رانجھا‘ کے سوا تمام کی تمام سلطان راہی کی۔ ہیر رانجھا شاید وہ واحد فلم ہے جسے ناچیز نے کم از کم سو بار ضرور دیکھا ہو گا۔ وی سی آر کو ٹریکٹر کی بیٹری کی مدد سے چلایا جاتا تھا اور ٹریکٹر ہمارے چچا کی ملکیت تھا اور چچا ہیر کا سودائی تھا۔ گھر میں چچی سے ہیر وارث شاہ سنتا، ٹریکٹر پر ہیر کی قوالی چلتی اور جب وی سی آر لایا جاتا تو آغاز ہیر رانجھا سے کیا جاتا، باقی کا منورنجن بعد میں ہوتا۔
صرف کامیڈی نہیں دیگر موضوعات کے اعتبار سے بھی یہ شاندار فلمیں ہیں۔ میں نے ان فلموں میں اپنے گاؤں کے رسم و رواج کو دیکھا ہے، اپنا بچپن دیکھا ہے، اپنی ثقافت اور زبان کی حلاوت کو محسوس کیا ہے۔ پنجاب کی رہتل کی بھرپور عکاسی کرتی ان فلموں نے فلم بینوں کو اپنے طرف متوجہ کیا ہے۔
یہ سفر زیادہ سے زیادہ دو عشروں پر محیط ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں ایسی فلمیں نہیں بنائی گئیں اور نہ ہی بنائی جا رہی ہیں۔ ہماری پنجابی فلم انڈسٹری تو اللہ کو پیاری ہو گئی مگر اردو فلم کا معیار بھی اتنا پست ہو چکا ہے کہ جیسے یہ کام طفلانِ گلی کوچہ کو سونپ دیا گیا ہو۔ نقالی ہے محض نقالی۔ لکیر کے اُس پار، منی، شیلا اور چھما چھما ایسے آئٹم سانگ ہیں تو لکیر کے ادھر بلی، قلاباز دل اور ڈاکو رانی جیسے گانے فلمائے جا رہے ہیں۔ شاید اسی سطحی معیار اور دھرتی سے جڑی کہانیوں کے فقدان سے لوگ مشرقی پنجاب کی فلموں کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ایسے عالم میں ہماری ثقافت کا رکھوالا کون ہے؟ فیصلہ آپ خود کر لیجیے۔