یورپی یونین اور امریکہ نے منگل کو کہا کہ وہ 2015 میں ایران اور بڑی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے کی بحالی کے متعلق معاہدے کے ’حتمی‘ مسودے پر ایران کے ردعمل کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
فرانسیسی خبررساں ایجسنی اے ایف پی کے مطابق امریکہ نے پیر کو کہا تھا کہ وہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسیپ بوریل کو 18 اگست کو پیش کیے جانے والے متن پر اپنے جواب سے پہلے ہی آگاہ کر رہا ہے۔
ایک ایسا معاہدہ، جس کے بعد ایران کی تیل کی 25 لاکھ بیرل یومیہ پیداوار سے امریکی پابندیاں ہٹ سکتی ہیں۔ اس معاہدے کے امکان کے باعث عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمت کم ہوئی ہے۔ امریکی تیل کے سودے تقریباً تین فیصد کم ہو کر 90 ڈالر فی بیرل سے بھی نیچے آ گئے ہیں۔
بوریل کے ایک ترجمان، جنہوں نے ایران اور امریکہ کو اس معاہدے میں واپس لانے کے لیے بات چیت کو مربوط کیا، انہیں پیر کی شام ایران کی جانب سے ردعمل موصول ہوا اور یورپی یونین امریکہ اور دیگر فریقوں کے ساتھ ’آگے کی راہ پر‘ مشاورت کر رہی ہے۔
بوریل کی ترجمان نبیله مسرالی نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ ہر کوئی ایران کے جواب کا مطالعہ کر رہا ہے اور یہ قیاس آرائیاں کرنے کا وقت نہیں ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا: ’ہمیں یورپی یونین کے ذریعے ایران کا جواب موصول ہوا ہے اور ہم اس کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ ہم اپنے خیالات یورپی یونین کو بتا رہے ہیں۔‘
ایران کی سرکاری خبررساں ایجنسی ارینا نے منگل کو خبر دی کہ اگر امریکہ ’حقیقت پسندی اور لچک‘ کے ساتھ رد عمل ظاہر کرتا ہے تو ایران کے جواب پر ایک معاہدہ طے پا جائے گا۔ خبر رساں ایجنسی نے ایک ’باخبر ذرائع‘ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: تہران کو ’توقع ہے کہ اگلے دو دنوں میں دوسرے فریق کا جواب مل جائے گا۔‘
ارنا نیوز ایجنسی نے جمعے کو کہا تھا کہ ممکن ہے ایران اس معاہدے کو بچانے کے لیے یورپی یونین کی جانب سے تیار کردہ ’حتمی‘ متن کو قبول کر لے، جس کا مقصد پابندیوں سے نجات کے بدلے ایران کے جوہری پروگرام کو روکنا ہے۔
یہ معاہدہ 2018 میں اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ کے انخلا کے بعد سے ختم ہو چکا ہے۔ امریکی انتظامیہ نے ایران پر دوبارہ سنگین پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
ارنا کے مطابق ایک نامعلوم ایرانی سفارت کار نے کہا: ’یورپی یونین کی تجاویز قابل قبول ہیں بشرطیکہ وہ پابندیوں اور تحفظات سے متعلق مختلف نکات اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے پاس زیر التوا معاملات پر ایران کو یقین دہانی کرائیں۔‘
تین مسائل
ارنا کے مطابق دیگر اختلافات تین معاملات پر مرکوز ہیں۔
خبر رساں ادارے نے وضاحت کیے بغیر کہا: ’امریکہ نے ان میں سے دو پر زبانی طور پر لچک دکھائی ہے لیکن اسے متن میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔‘
’تیسرے مسئلے کا تعلق اس ضمانت سے ہے کہ یہ معاہدہ دیرپا رہے گا اور اس کا انحصار ایران کو یقین دلانے کے لیے امریکہ کی حقیقت پسندی پر ہے۔‘
فریقین میں سے کسی نے بھی تنازع کے ان نکات کو تفصیل سے بیان نہیں کیا جن کی وجہ سے ابھی تک کوئی معاہدہ نہیں ہو پا رہا۔
یورپی یونین کے ایک سینیئر عہدیدار نے رواں ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ ایران کی جانب سے اپنی نظریاتی فوج پاسداران انقلاب کو ’دہشت گرد تنظیم‘ کے طور پر بلیک لسٹ کرنے کے مطالبے کو مذاکرات سے خارج کر دیا گیا ہے اور اس پر معاہدے کے بعد بات چیت ہوگی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عہدیدار نے کہا کہ تہران کی جانب سے اس بات کی ضمانت کے مطالبے پر بھی پیش رفت ہوئی ہے کہ واشنگٹن دوبارہ اس معاہدے سے انحراف نہیں کرے گا جیسا کہ اس نے 2018 میں اس وقت کے صدر ٹرمپ کے دور میں کیا تھا۔
یورپی یونین کے عہدیدار نے کہا کہ تہران اور واشنگٹن کو اب بھی’پابندیوں کے خاتمے کے متعلق امور اور ایک دو جوہری سوالات پر اتفاق کرنا ہے جو مارچ میں موجود نہیں تھے کیونکہ ایرانیوں نے اپنے پروگرام کو آگے بڑھایا تھا۔‘
ایران یہ بھی چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کا جوہری نگران ادارہ، IAEA، افزودہ یورینیم کے ایسے نشانات کے بارے میں اپنی طویل عرصے سے جاری تحقیقات کو ختم کرے جو ان مقامات سے ملے جنہیں جوہری سرگرمیوں کے لیے وقف نہیں کیا گیا۔
برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، ایران اور روس کے ساتھ ساتھ باالواسطہ طور پر امریکہ نے کئی ماہ کے وقفے کے بعد اگست کے شروع میں جوہری معاہدے پر مذاکرات دوبارہ شروع کیے تھے۔
مشترکہ جامع لائحہ عمل یا جے سی پی او اے کے نام سے مشہور معاہدے کی بحالی کے لیے یورپی یونین کے مربوط مذاکرات مارچ میں ختم ہونے سے قبل اپریل 2021 میں شروع ہوئے تھے۔
یورپی یونین نے گذشتہ منگل کو کہا تھا اسے توقع ہے کہ تہران اور واشنگٹن اس معاہدے کو مکمل کرنے کے مقصد سے ’حتمی‘ متن کا ’بہت جلد‘ جواب دیں گے۔
ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر ابدللہان نے کہا کہ طویل مذاکرات کے بعد ’ہمارے لیے جو اہمیت رکھتا ہے وہ پابندیوں کے خاتمے کی عملی طور پر تصدیق ہے۔‘
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ یہ ایران پر منحصر ہے کہ وہ حتمی معاہدہ کرے، انہوں نے ان مبینہ مطالبات کو مسترد کر دیا جو مذاکرات کے دائرے سے باہر ہیں۔
انہوں نے کہا:’ہمیں یقین ہے کہ جس پر بات چیت ہوسکتی تھی، اس پر ہو چکی ہے اور ہم جے سی پی او اے کی تعمیل میں باہمی واپسی کے لیے تیار ہیں۔‘