اقوام متحدہ کے ادارے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ بحران سے بچنے کے لیے ’اب‘ مذاکرات دوبارہ شروع کرے۔ دوسری صورت میں 2015 کے جوہری معاہدے کو بچانا ’انتہائی مشکل‘ ہوسکتا ہے۔
ایران نے گذشتہ ہفتے اپنی جوہری تنصیبات سے کچھ کیمروں کو ہٹا دیا تھا، جسے جوہری توانائی ایجنسی نے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ایک ’سنگین دھچکا‘ قرار دیا تھا۔
آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے اتوار کو سی این این پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں اسے ’انتہائی سنگین اقدام‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 27 نگرانی والے کیمرے ’ہٹ چکے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’حالیہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ کبھی بھی اچھی بات نہیں ہے کہ بین الاقوامی انسپکٹرز کو یہ کہنا شروع کر دیا جائے کہ گھر جائیں۔۔۔چیزیں بہت زیادہ پریشان کن ہو جاتی ہیں۔‘
2015 کے معاہدے نے ایران کو اس کی جوہری سرگرمیاں روکنے کے بدلے اقتصادی پابندیوں سے نجات دلائی تھی، لیکن 2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے دستبردار ہو گئے اور ایران پر دوبارہ پابندیاں لگا دیں، جس سے تہران اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنا شروع ہوگیا۔
مزید پڑھیے : ایران کا کیمرے ہٹانا جوہری معاہدے کے لیے دھچکا: آئی اے ای اے
اس معاہدے کو بحال کرنے کے حوالے سے مذاکرات مارچ سے تعطل کا شکار ہیں۔
سی این این کو دیے گئے انٹرویو میں رافیل گروسی نے بتایا کہ انہوں نے اپنے ایرانی ہم منصبوں سے کہا: ’ہمیں اب مل کر بیٹھنا چاہیے۔ ہمیں صورت حال کا ازالہ کرنا ہے، ہمیں مل کر کام جاری رکھنا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ایران کے پاس واحد راستہ اعتماد حاصل کرنا ہے اور وہ اعتماد جس کی انہیں اپنی معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے بہت زیادہ ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو وہاں موجود رہنے کی اجازت دی جائے۔‘
رافیل گروسی نے مزید کہا کہ نگرانی کے کیمروں کے بغیر، ان کی ایجنسی جلد ہی یہ اعلان کرنے سے قاصر ہو جائے گی کہ آیا ایرانی جوہری پروگرام ’پرامن‘ ہے، جیسا کہ تہران اصرار کرتا ہے یا آیا وہ ایٹم بم بنا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’یہاں تک کہ اگر ایران چند مہینوں میں کیمرے دوبارہ لگا دیتا ہے، اس دوران وہ جو بھی کچھ کرے گا، وہ خفیہ رہے گا اور اس سے ممکنہ طور پر معاہدے پر اثر پڑے گا۔‘
بقول رافیل گروسی: ’اسی لیے حالیہ ایرانی کارروائی نے معاہدے کی طرف واپسی کا راستہ انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔‘
اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو اس معاہدے سے نکال لیا تھا اور موجودہ صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ اس معاہدے کو دوبارہ قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، تاہم شرط یہ ہے کہ ایران بھی اپنے وعدوں کا احترام کرے۔
لیکن اس حوالے سے ہونے والے مذاکرات میں اب تک کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے۔
اتوار کو جانی ہونے والے ایک بیان کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان کے ساتھ ہفتے کے روز ایک فون کال میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے سفارت کاروں سے معاہدے کو بچانے کے لیے کہا۔
دوسری جانب اتوار کو ایران کی کرنسی اب تک کی سب سے کم قیمت پر آگئی کیونکہ تہران کے خلاف امریکی پابندیاں ابھی تک نافذ ہیں۔
ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے سے امریکی دستبرداری کی وجہ سے ایران کی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے، جس نے ایران کے تیل اور بینکنگ سیکٹر پر پابندیاں بحال کر دی تھیں۔
اس خبر کی تیاری میں خبر رساں اداروں اے ایف پی اور اے پی سے مدد لی گئی۔