افغانستان میں تین مرتبہ جوڈو کے چیمپیئن رہنے والے طواب عالم پاکستان میں پناہ گزینوں کے لیے ایک عارضی کیمپ میں زندگی گزار رہے ہیں۔
28 سالہ طواب کے پاکستان میں پناہ لینے کی وجہ جوڈو کا کھیل نہیں بلکہ ان کا افغانستان میں ایک ریڈیو چینل کے ساتھ بحیثیت صحافی کام کرنا تھا۔
طواب نے قازقستان، ازبکستان، ایران اور ترکی میں کئی بین الاقوامی ٹورنامنٹس میں افغانستان کی نمائندگی کی جبکہ 2014 میں انہوں نے نیپال میں جوڈو ساؤتھ ایشیا چیمپئن شپ میں چاندی کا تمغہ جیتا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سال طالبان کی آمد کے بعد ان کے ریڈیو سٹیشن کے سربراہ کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور انہیں اپنی زندگی کو بھی خطرہ محسوس ہوا۔
طواب بتاتے ہیں کہ وہ دو دن تک اپنے گھر میں چھپے رہے اور خطرات کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔
اپنے گھر سے نکلنے سے قبل انہوں نے اپنا حلیہ بدلا اور دو دوستوں كے ہمراہ صوبہ قندوز سے کابل اور قندھار کے راستے پاکستان افغانستان کے درمیان چمن بارڈر پہنچے، جہاں سے انہوں نے کوئٹہ کا راستہ لیا۔
’میں اپنے ملک میں جوڈو چیمپیئن رہ چکا تھا اور مجھے معلوم تھا کہ طالبان میری شکل سے واقف ہیں، اسی لیے میں نے داڑھی بڑھا لی تھی۔‘
جوڈو كے كھلاڑی کے نزدیک طالبان سے ڈرنے کی دو وجوہات تھیں، جن میں ان کے صحافی ہونے کے علاوہ کابل میں کچھ عرصہ ایک نجی سکیورٹی کمپنی میں سکیورٹی آفیسر کی حیثیت سے نوکری کرنا تھا، جس کے باعث قندوز میں طالبان انتظامیہ انہیں کسی بیرونی ملک کا ایجنٹ سمجھتی تھی۔
طواب کا کہنا تھا کہ قندوز سے قندھار تک تمام علاقوں پر طالبان موجود تھے، تاہم ان کے بدلے ہوئے حلیے نے ان کی حفاظت کی۔ ’مجھے پورا یقین ہے کہ میں اپنا حلیہ نہ بدلتا تو میں نے مارا جانا تھا۔‘
افغان جوڈو چیمپیئن نے بتایا کہ قندوز سے کوئٹہ تک ان کا سفر بہت سی مشکلات اور مسائل پر مشتمل رہا، اور انہیں جگہ جگہ ’پیسے دے‘ کر اپنا راستہ نکالنا پڑا۔
پاكستان پہنچنے كے بعد طواب نے سكھ كا سانس تو لیا، تاہم یہاں کئی دوسرے مسائل ان کے منتظر تھے، جس میں سرفہرست بےروزگاری تھی۔
طواب اپنے ساتھ اپنی جمع پونجی لے کر آئے تھے، جس کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ایک گھر کرائے پر لیا لیکن کوئی نوکری نہ ہونے کے باعث ان کے پاس موجود پیسے جلد ہی ختم ہو گئے۔
انہوں نے مختلف جگہوں پر نوکری حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔
طواب نے پاکستان میں ریستوران، ڈپارٹمنٹل سٹور اور ہوٹلوں میں بھی کام کے لیے درخواستیں دیں، جہاں سے انہیں غیر ملکی اور کام کرنے کی قانونی اجازت نہ ہونے کے باعث انکار کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سب کے علاوہ جن دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑا ان کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد پہنچنے کے فوراً بعد ایک گیسٹ ہاؤس میں انہیں رہنے کے لیے کمرہ دینے سے انکار کر دیا گیا جس کی وجہ ان کے پاس ویزا نہ ہونا بتایا گیا۔
نوکری نہ ملنے اور ان کے پاس پیسے ختم ہونے کے بعد طواب کے سر سے چھت چھن گئی اور ان کے پاس اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے باہر افغان پناہ گزینوں کے لیے عارضی کیمپ میں رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا۔
آخر ایک دن وہ اس کیمپ میں شفٹ ہو گئے جہاں ہزاروں افغان خاندان تقریباً تین مہینوں سے عارضی طور پر بنائے گئے خیموں میں شب و روز گزار رہے ہیں۔
کیمپ میں وہ افغان خاندان مقیم ہیں جو کسی یورپی یا امریکی ملک جانے کی آس لگائے بیٹھے ہوئے ہیں، اور اسی سلسلے میں دنیا کا ضمیر جھنجھوڑنے کی خاطر اسلام آباد میں احتجاج کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طواب عالم کہتے ہیں کہ پناہ گزینوں کے عارضی کیمپ میں رہنے سے انہیں اپنی خواہش کے لیے کوشش کا موقع مل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیمپ میں کئی ایسے خاندان ہیں جن کے رشتہ دار کسی امریکی یا یورپی ملک میں مقیم ہیں اور پاکستان میں موجود یہ افراد بھی وہیں جانا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کو امریکہ یا یورپ جانے کے لیے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین یو این ایچ سی آر کے ذریعے ویزا لینا پڑتا ہے، جو ایک مشکل اور دشوار سلسلہ ہے۔
طواب نے اقوام متحدہ، یو این ایچ سی آر، دوسرے بین الاقوامی اداروں، اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اسلام آباد میں اس عارضی کیمپ میں مقیم افغان خاندانوں کی پاکستان سے باہر جانے میں مدد کریں۔