پشاور کے پناہ گزین کیمپ میں افغانستان کے ’بابائے کرکٹ‘

1986 میں پشاور کے کچہ گڑھی پناہ گزین کیمپ میں آنے والوں میں تاج ملوک بھی تھے، جن کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ نوجوان آگے جا کر افغانستان کی قومی کرکٹ ٹیم کی بنیاد ڈالے گا۔

یہ افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے دن تھے جب سرحد پار سے لاکھوں لوگ پاکستان آکر آباد ہو گئے۔

ان میں سے زیادہ تر لوگ پشاور کے کچہ گڑھی پناہ گزین کیمپ میں آباد ہوئے۔ تاج ملوک عالم بھی انہی پناہ گزینوں میں شامل تھے جو اپنے خاندان کے ہمراہ 1986 میں کچہ گڑھی پناہ گزین کیمپ میں آئے۔

ان نامساعد حالات میں لوگوں کو کیا پتہ تھا کہ یہ نوجوان ایک دن افغانستان کو قومی کرکٹ ٹیم تحفے میں دے گا۔

تاج ملوک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب وہ پشاور آئے تو کیمپ کے اندر اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے یہاں سے ان کو کرکٹ کا شوق پیدا ہوا۔

تاج نے بتایا کہ انہیں کرکٹ کا اتنا شوق تھا کہ انہوں نے بیٹ بال خریدا اور روز کیمپ کے گلیوں میں کرکٹ کھیلنے لگے۔

’پشاور میں رہتے ہوئے ایک سال ہوگیا تھا جب 1987 میں ورلڈ کپ کا انعقاد ہوا۔ اس ایونٹ کا ایک میچ پشاور کے ارباب نیاز سٹیڈیم میں کھیلا گیا۔ وہ میری زندگی کا پہلا بین الاقوامی میچ تھا جو میں نے سٹیڈیم میں دیکھا۔ اس دن میری خوشی کی انتہا نہیں تھی۔‘

تاج نے بتایا کہ وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ رشتے داروں کے یہاں ٹی وی پر میچ دیکھتے تھے۔

’بعد میں ہم دوستوں نے مزید محنت کی اور 1995 میں افغانستان کرکٹ کلب کے نام سے ایک لیگ بنائی۔ اسی لیگ میں شامل کھلاڑیوں کو افغانستان کی قومی کرکٹ ٹیم کا رتبہ ملا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاج ملوک نے ایک ڈاکومینٹری میں بتایا کہ 2001 میں افغانستان کو آئی سی سی کی ایفیلیٹ ممبرشپ ملی جس کے بعد انہوں نے مزید محنت کی۔

’ہم نے پشاور میں ڈومیسٹک میچ کھیلنا شروع کیے اور کابل میں بھی پریکٹس جاری رکھی۔‘

تاج نے بتایا کہ ان کا کلب پشاور کے دیگر کلبوں کے ساتھ میچ کھیلتا تھا جس سے ان کی پریکٹس ہوجاتی۔

’اسی کلب کو ہم نے افغانستان کرکٹ فیڈریشن کا نام دیا جو بعد میں طالبان کی اجازت سے افغانستان کرکٹ بورڈ بن گیا۔‘

افغانستان کرکٹ ٹیم کا پہلا بین الاقوامی دورہ ایشین کرکٹ کونسل ٹرافی کا تھا جس میں 15 ٹیموں نے حصہ لیا۔

تاج ملوک کو ’فادر آف افغانستان کرکٹ ٹیم‘ کا خطاب بھی ملا۔ ’میں اس وقت جب ٹیم بنی بھی نہیں تھی کھلاڑیوں کا ایسا خیال رکھتا تھا جس طرح والد اپنے بیٹوں کا رکھتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ کابل میں کھلاڑیوں کی ٹریننگ، کھانے پینے اور پریکٹس کا خیال رکھتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ کرکٹ مبصرین نے انہیں ’فادر آف افغانستان کرکٹ ٹیم‘ کا خطاب دیا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ