سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے بدھ کو واضح کیا کہ فلسطینیوں کے لیے ایک خودمختار ریاست کا قیام، اس کا دیرینہ غیر متزلزل مؤقف ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا اور اس کے بغیر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں ہو سکتے۔
سعودی وزارتِ خارجہ کا یہ بیان اس وقت آیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ غزہ پٹی کو اپنے قبضے میں لینا چاہتے ہیں اور تمام فلسطینیوں کو وہاں سے بےدخل کرکے دوسرے ممالک میں بسانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جہاں ان کے لیے بستیاں تعمیر کی جائیں گی۔
سعودی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ یہ وہی مؤقف ہے جسے ولی عہد محمد بن سلمان کئی مرتبہ دہرا چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزارتِ خارجہ کے بیان میں 18 ستمبر 2024 کو شوریٰ کونسل سے ولی عہد کے خطاب کا حوالہ دیا گیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سعودی عرب فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھے گا، جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہوگا، اور مملکت اسرائیل کے ساتھ تعلقات اس وقت تک معمول پر نہیں لائے گی جب تک یہ شرط پوری نہ ہو۔
بیان میں ولی عہد کے 11 نومبر، 2024 کے ایک اور بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں انہوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوششیں جاری رکھنے پر زور دیا تھا اور اسرائیلی قبضے کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔
بیان میں مزید کہا گیا: ’مملکت سعودی عرب فلسطینی عوام کے قانونی اور جائز حقوق کی کسی بھی خلاف ورزی کو کسی صورت قبول نہیں کرے گا، خواہ وہ اسرائیلی بستیوں کی توسیع، فلسطینی علاقوں کے انضمام، یا فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین سے بےدخل کرنے کی کوششوں کی شکل میں ہوں۔
’آج بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطینیوں کی اذیت کو ختم کریں جو کہ اپنی سرزمین پر ثابت قدم کھڑے ہیں اور اسے چھوڑیں گے نہیں۔
وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا: ’پائیدار اور منصفانہ امن اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک فلسطینی عوام کو ان کے جائز حقوق نہیں دیے جاتے، جیسا کہ بین الاقوامی قانونی قراردادوں میں تسلیم کیا گیا ہے، اور یہی مؤقف امریکی انتظامیہ کو ماضی میں بھی واضح طور پر بتایا جا چکا ہے۔‘