تقریباً 20 سالہ امریکی قبضے کے خاتمے کے بعد 15 اگست 2021 کو طالبان کے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ترک وطن کرنے والے ہزاروں افغان شہریوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان پیدا ہوگیا ہے۔
ان میں سے سینکڑوں افراد ایسے ہیں جو ملک کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر گذشتہ برس افغانستان چھوڑ کر پاکستان پہنچے اور اس وقت سے لے کر اب تک ان کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
گذشتہ 34 روز سے یہ افغان تارکین وطن اسلام آباد پریس کلب کے باہر سراپا احتجاج ہیں۔ شدید گرم موسم میں دن رات کھلے آسمان تلے وقت گزارنے والے ان مظاہرین میں بچے اور بزرگ بھی شامل ہیں جنہوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھے ہیں جن پر ’ہمیں بچاؤ، نہیں تو مار دو‘ درج ہے۔
ان میں تاجک، ازبک اور ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین بھی شامل ہیں۔
تارکین وطن احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟
احتجاج میں شامل کابل سے تعلق رکھنے والی افغان خاتون زہرہ واحدی اختری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 22 جنوری 2022 کو اسلام آباد پہنچنے کے بعد سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔
’ہم نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے دفترکے قریب احتجاج کیا لیکن وہاں انتظامیہ نے ہمیں روک دیا، جس کے بعد ہم پریس کلب آ گئے۔‘
بقول زہرہ: ’ہماری تعداد ایک ہزار کے قریب ہے اور ہمارا مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان ہماری مدد کرے تاکہ ہم دوسرے ملکوں میں جاسکیں۔ ہم اپنا احتجاج اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کو بھی ریکارڈ کروا چکے ہیں جس کا تاحال کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘
مظاہرین کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جن میں صاف پانی، شیلٹر اور واش روم جیسی بنیادی سہولیات شامل ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا: ’یہاں کئی افراد کے ویزے ختم ہو رہے ہیں، جس کے بعد انہیں آن لائن رقوم کے حصول میں بھی مشکلات درپیش ہوں گی۔‘
اسی مظاہرے میں شامل نجیب اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی بارہا کوششوں کے باوجود بچوں کو سکول میں داخلہ نہیں مل سکا۔ سرکاری سکولوں کی جانب سے انہیں صاف منع کر دیا گیا جبکہ نجی سکول نے ملک میں عارضی رہائش کی وجہ سے ان کے بچوں کو داخلہ نہیں دیا۔
بقول نجیب اللہ: ’جب ہم یہاں آئے تو مجھے امید تھی کہ میں ایک ماہ میں بیرون ملک چلا جاؤں گا لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔‘
احتجاج میں صحافی بھی شامل
ان مظاہرین میں صحافی بھی موجود ہیں جو طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد افغانستان میں اپنا کام جاری نہ رکھ سکے۔
افغان صحافی فائزہ زیرک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ افغانستان میں ایک نیوز ایجنسی میں کام کرتی تھیں لیکن جب وہاں صورت حال خراب ہوئی تو انہیں پاکستان آنا پڑا۔
وہ کہتی ہیں: ’اس احتجاج میں 15 سے زائد صحافی شامل ہیں جنہیں پاکستان آئے آٹھ ماہ ہوچکے ہیں۔ افغانستان میں میڈیا ہاؤسز بڑی تعداد میں بند ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے کئی صحافی اپنا کام کھو چکے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں سے کسی اور ملک میں جائیں تاکہ اپنا مستقبل بنا سکیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’صحافیوں کا کام تو حقیقتوں اور سچائیوں کو دکھانا ہے لیکن وہاں اب وہ حکومت بن چکی ہے جو انہیں سچی خبر دینے کی اجازت نہیں دے رہی۔ صحافیوں کو ’ہم جو کہتے ہیں، آپ وہی بولیں‘ کہا جا رہا ہے۔‘
حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ کا ادارہ برائے پناہ گزین کا کیا موقف ہے؟
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے کیے گئے اقدامات سے متعلق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ریاض پیرزادہ سے متعدد بار رابطہ کیا لیکن ان کا موقف نہ مل سکا۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے ترجمان قیصر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 100 کے قریب افغان پریس کلب کے باہر احتجاج کر رہے ہیں اور ان کا ادارہ حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر دو مرتبہ ان سے مل چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کی حکومت پاکستان کے ساتھ سیاسی پناہ لینے والوں کی رجسٹریشن اور دستاویزات کے بارے میں بات چیت جاری ہے۔ اس عمل میں تاخیر ہو سکتی ہے جس کے متعلق ہم ایک منظم طریقے سے ان افراد کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔‘
پاکستان میں افغان صحافیوں سے متعلق اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
فریڈم نیٹ ورک پاکستان کی رپورٹ کے مطابق افغان صحافیوں کو پاکستان میں انسانی اور پیشہ ورانہ مدد فراہم کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
پاکستان میں موجود افغان صحافیوں میں 30 فیصد خواتین ہیں۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے 41 فیصد کو رپورٹنگ، 32 فیصد کو ڈیجیٹل جرنلزم، 27 فیصد کے لیے غیر ملکی میڈیا کے لیے خط و کتابت اور کیمرہ کے کام جبکہ 14 فیصد صحافیوں کو اپنا کام دوبارہ اور بہتر طریقے سے شروع کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
افغان صحافی، تجزیہ نگار اور افغان امور کے ماہر سمیع یوسفزئی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں ویسے تو 20 لاکھ سے زائد افغان پناہ گزین ہیں، لیکن جو نئے آنے والے افغان ہیں وہ زیادہ برے حالات میں ہیں۔
بقول سمیع: ’اس طرح کا احتجاج میں نے پہلے نہیں دیکھا۔ یہ چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے پناہ گزین انہیں آباد کرے لیکن یہ ادارہ حکومت پاکستان کی جانب سے شدید دباؤ میں ہے اور پناہ گزینوں کو نہ لینے کا سختی سے کہہ بھی رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ادارہ چھپ کر کچھ افراد کی مدد تو کر رہا ہے لیکن اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج کی صورت میں ان کی جانب سے مدد کیے جانے کا مطلب ہے کہ یہاں مزید پناہ گزین آئیں گے، جو حکومت کے لیے مشکل صورت حال ہوگی۔ پاکستان کا ویزہ لگوانے کے لیے پہلے ہی تگ و دو کی جا رہی ہے، لوگ یہاں آ تو رہے ہیں لیکن واپس نہیں جا رہے، وہ یہاں آباد ہونا چاہتے ہیں۔‘
بقول سمیع یوسفزئی: ’کچھ دیر قبل میری افغان قومی ریڈیو ٹیلی ویژن سے منسلک ایک خاندان سے بات ہوئی جو پلاسٹک کے خیمے میں رہ رہی ہے۔ یقین نہیں آتا کہ کوئی ایسے برے حالات میں زندگی گزار سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کو ان کی مدد کرنی چاہیے لیکن وہ حکومت پاکستان سےخوفزدہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین نے نہ پہلے آئے ہوئے پناہ گزینوں کی مدد کی، نہ اب کریں گے۔ نئے آنے والے پناہ گزینوں کو دوسرے ملکوں میں آباد کرنا اس کے بس کی بات نہیں جو کہ اس ادارے اور حکومت پاکستان کے لیے گھمبیر صورت حال ہے۔‘