انڈیا کی تاریخ میں پہلی بار آج سپریم کورٹ کی کارروائی کو براہ راست نشر کیا گیا۔ یہ وہ دن ہے جب چیف جسٹس این وی رمنا ریٹائر ہو رہے ہیں۔
دی انڈین ایکسپریس کے مطابق سپریم کورٹ کے ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا: ’براہ کرم نوٹ فرمائیں کہ چیف جسٹس آف انڈیا کے دفتر چھوڑنے کے موقعے پر یعنی 26 اگست 2022 کو صبح ساڑھے 10 بجے کے بعد معزز چیف جسٹس کی عدالت یعنی رسمی بینچ کی کارروائی کو نیشنل انفارمیٹکس سینٹر کے ویب کاسٹ پورٹل کے ذریعے لائیو سٹریم کیا جائے گی۔‘
ریٹائرمنٹ کے دن چیف جسٹس کے ساتھ بینچ میں ان کے نامزد جانشین چیف جسٹس یو یو للت بھی بیٹھے جبکہ جسٹس ہیما کوہلی بھی بینچ کا حصہ تھیں۔
2018 میں انڈیا کی سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل بینچ نے کھلی عدالت (Open Court) کے تصور کا حوالہ دیتے ہوئے ’سپریم کورٹ بینچ کے سامنے آئینی یا قومی اہمیت کے حامل مقدمات کی لائیو سٹریمنگ‘ کی اجازت دی تھی۔
اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال، جنہوں نے عدالتی کارروائی کی براہ راست نشریات کی حمایت کی ہے، نے بھی ’سپریم کورٹ میں عدالتی کارروائی کی براہ راست سٹریمنگ کے لیے جامع رہنما خطوط‘ تیار کیے۔
اس وقت انڈیا کی 25 ہائی کورٹس میں سے چھ گجرات، اڑیسہ، کرناٹک، جھارکھنڈ، پٹنہ اور مدھیہ پردیش یوٹیوب پر اپنی کارروائی لائیو سٹریم کرتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا ڈاٹ کام کے مطابق سپریم کورٹ نے عدالتی کارروائی کی لائیو سٹریمنگ اور ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت دیتے ہوئے 26 ستمبر 2018 کو کہا تھا کہ ’سورج کی روشنی بہترین جراثیم کش ہے۔‘
اس وقت چیف جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس اے ایم خانولکر نے ایک مشترکہ فیصلہ سنایا تھا۔ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کا فیصلہ الگ تھا، لیکن اس پر اتفاق کیا گیا۔ عدالت نے کہا تھا کہ لائیو سٹریمنگ عدالتی کارروائیوں میں مزید شفافیت اور ’عوام کے جاننے کے حق‘ کو مؤثر بنائے گی۔
پہلی بار 20 کیسز کی کارروائی لائیو سٹریم
پہلی بار سپریم کورٹ کے تقریباً 20 مقدمات کی سماعت اور فیصلے سٹریم کیے جانے کا منصوبہ ہے۔
سب سے اہم حکم ایک درخواست پر ہوگا جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ انتخابات سے پہلے مفت اشیا کی پیشکش کرنے والی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی جائے۔
چیف جسٹس این وی رمنا کی الوداعی تقریر
دہلی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس نے اپنی الوداعی تقریر میں کہا: ’مجھے امید ہے کہ میں اس توقع پر پورا اترا جو آپ نے مجھ سے کی تھی۔ میں نے چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنے فرائض ہر ممکن طریقے سے ادا کیے۔‘
’آپ سب جانتے ہیں کہ میں نے دو مسائل اٹھائے، بنیادی ڈھانچہ اور ججوں کی تقرری۔ سپریم کورٹ اور کالجیم میں اپنے ہم عصر ججوں کی حمایت کی بدولت ہم نے ہائی کورٹس میں تقریباً 224 ججوں کو کامیابی سے مقرر کیا ہے۔‘