بھارت کی سپریم کورٹ نے دارالحکومت دہلی میں فضائی آلودگی تشویش ناک سطح پر پہنچنے کے بعد تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکام کو تجویز دی ہے کہ شہر کو دو دن کے لیے بند کر دیا جائے۔
شہر کے وسط میں واقع سپریم کورٹ نے ایک ہفتے سے بھی زائد عرصے سے شہر اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر چھائی سموگ کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ ججوں کو اپنے گھروں کے اندر بھی ماسک پہننے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔
چیف جسٹس این وی رمنا اور جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور سوریا کنت پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے ایک 17 سالہ طالب علم کی دائر درخواست پر ہفتے کو ایسے وقت میں سماعت کی جب دہلی کا ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) ’شدید‘ سطح پر پہنچ گیا اور شہر کے تقریباً ہر علاقے میں 400 سے 500 تک ریکارڈ ہوا۔
اے کیو آئی ہوا کے میعار کی جانچ میں استعمال ہونے والا انڈیکس ہے۔ ہوا میں جتنے زیادہ آلودہ ذرات ہوتے ہیں، یہ اتنا زیادہ بڑھتا ہے۔ 50 سے زائد اے کیو آئی انسانی صحت کے لیے خطرناک سمجھا جاتا ہے۔
آلودگی پر نظر رکھنے والوں نے شہریوں پر زور دیا ہے کہ جب تک ہوا میں زہریلے زرات کم نہیں ہوتے وہ گھروں سے باہر نہ جائیں اور کھلی فضا میں کثرت نہ کریں۔
ویب سائٹ لائیو لا کے مطابق چیف جسٹس نے سولیسٹر جنرل تشار مہتا سے کہا: ’اس پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر اقدامات اٹھائیں۔
’ہمیں ابھی بتائیں کہ اے کیو آئی کو 200 پوائنٹ کم کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اگر ضرورت ہے تو دو دن کے لاک ڈاؤن یا کسی چیز کے بارے میں سوچیں۔۔۔ لوگ کیسے جیئیں گے؟‘
انہوں نے مزید کہا: ’آپ دیکھ سکتے ہیں صورت حال کتنی خراب ہے۔۔۔ ہم اپنے گھر میں بھی ماسک پہننے پر مجبور ہیں۔ حالات سنگین ہیں۔‘
دہلی کی انتظامیہ، بھارت کی وفاقی حکومت اور پنجاب اور ہریانہ جیسی شمالی ریاستوں کو جواب جمع کروانے کے لیے 48 گھنٹوں کا وقت دیا گیا ہے کہ وہ بتائیں کہ آے کیو آئی کو 200 پوائنٹس کم کیسے کیا جا سکتا ہے۔
حکومت اور ریاستوں کے وکلا نے کورٹ کو بتایا کہ منصوبہ سازی کے لیے آج ہی ہنگامی اجلاس رکھا جائے گا۔
دہلی انتظامیہ کے وکیل نے عدالت میں بتایا کہ شہر کی فضا میں سانس لینا ایک دن میں 20 سگریٹ پینے کے برابر ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت صورت حال کی سنجیدگی سے واقف ہے۔
ججوں نے رواں ماہ کے آغاز میں کرونا وبا کے بعد پہلی بار تعلیمی ادارے کھولنے پر دہلی انتظامیہ پر بھی سخت تنقید کی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکام نے دسیوں ہزار بچوں کو آلودہ ہوا، ڈینگی اور کرونا کے خطرے کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا۔
جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے دہلی کے سینیئر وکیل راہول مہرا سے سوال کرتے ہوئے کہا: ’آپ نے تمام سکول کھول دیے اور اب آپ صبح سات بجے چھوٹے بچوں اور ان کے پھیپھڑوں کو خطرناک حد تک آلودہ ہوا سے بیمار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مرکزی حکومت کا نہیں بلکہ آپ کا دائرہ اختیار ہے۔‘
راہول مہرا نے جب آلودگی کی بڑھتی ہوئی سطح کی وجہ پنجاب اور ہریانہ جیسی قریبی ریاستوں میں فصلوں کو جلانا قرار دیا تو سپریم کورٹ کے ججوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔
دہلی میں ہر موسم سرما کے دوران فضائی آلودگی پڑوسی ریاستوں میں فصلوں کا بھوسہ جلانے سے بڑھ جاتی ہے لیکن اس کی وجوہات میں صنعت، تعمیرات اور خود دارالحکومت کے اندر گاڑیوں سے نکنے والے زہریلے دھویں سمیت متعدد عوامل شامل ہیں۔
جسٹس رمنا نے وکیل سے استفسار کیا: ’آپ کہہ رہے ہیں کہ جیسے صرف کسان ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ دہلی میں (اندرونی) آلودگی پر قابو پانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات یا کاربن کے اخراج کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا کیا گیا ہے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس کانت نے کہا کہ صرف کسانوں پر الزام لگانا غیر منصفانہ ہے۔
ان کے بقول: ’اب کسانوں کو نشانہ بنانا ایک فیشن بن گیا ہے چاہے وہ دہلی حکومت ہو یا کوئی اور۔ (دیوالی کے موقعے پر) پٹاخوں پر پابندی تھی اس کا کیا ہوا؟
’دہلی کی 80 فیصد آلودگی کی وجوہات میں فصلیں جلائے جانے کے علاوہ دیگرعوامل شامل ہیں، ان اسباب کے لیے کیا کیا جا رہا ہے؟‘
دہلی نے دیوالی سے پہلے آتش بازی کے سامان کی فروخت اور خریداری پر مکمل پابندی عائد کرنے کی کوشش کی تھی کیوں کہ روشنیوں کے اس تہوار کی تقریبات میں ہر سال دارالحکومت کی فضائی آلودگی اپنے عروج کی سطح پر پہنچ جاتی ہے۔
لیکن کئی رپورٹس میں دہلی میں دیوالی کی تقریبات کے دوران اس پابندی کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کا انکشاف کیا گیا ہے کیونکہ چار نومبر کی پوری رات اور اس کے بعد کئی دنوں تک آتش بازی کا سلسلہ جاری رہا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اب دہلی کی سموگ چھٹ چکی ہے، جو کچھ باقی ہے وہ ٹھنڈ کی وجہ سے ہے۔
اب فضائی آلودگی سے چھٹکارا پانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ تیز ہواؤں جیسے سازگار ماحولیاتی حالات کا انتظار کیا جائے۔
اس کیس کو اب پیر تک ملتوی کر دیا گیا ہے جہاں وفاقی اور ریاستی انتظامیہ کو آلودگی کی خطرناک سطح سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے عدالت کو آگاہ کرنا ہو گا۔
© The Independent