کوئٹہ اور اس کے نواحی علاقوں میں اگست کی 25 اور 26 تاریخ کو طوفانی بارشوں کے نتیجے میں آنے والا سیلابی ریلہ تو گزر گیا مگر پیچھے ان گنت داستانیں چھوڑ گیا ہے۔ انہی علاقوں میں ایک ہنہ اوڑک بھی ہے۔
یہ علاقہ پہاڑ کے دامن میں واقع ہے، جو سیب اور دیگر پھلوں کے باغات کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس سب کے علاوہ یہاں ایک مشہور جھیل بھی ہے، جس میں پانی جمع ہونے کی صورت میں سیاح آتے رہتے ہیں۔
صدام حسین ہنہ اوڑک کے رہائشی ہیں، جن کا گھر اور باغ چند لمحوں میں ہی سیلاب بہا کر لے گیا۔ اب یہ علاقہ ایک خالی میدان کا منظر پیش کر رہا ہے، جہاں وہ اپنے گھر کی بچی کچھی چیزیں تلاش کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’اس روز بہت بارش ہوئی اور اس کی شدت بھی بڑھتی رہی لیکن ’ہم اس حوالے سے مطمئن تھے کہ پانی ہمارے گھروں کی طرف نہیں آئے گا۔ اس کے باوجود کہ ہمارے گھر کےعقب میں ایک نالہ ہے جو ہنہ جھیل کو جاتا ہے، وہ بھی موجود تھا۔
’جمعرات کو جب بارش شروع ہوئی تو ہم عام دنوں کی طرح اپنے گھر میں موجود تھے۔ ہم اس سے قبل بھی ایسی بارش کا سلسلہ دیکھ چکے تھے، لیکن رات کو 11 اور 12 بجے کے درمیان پانی کی شدت اور اس کی آواز کچھ اور طرح سے محسوس ہوئی۔‘
صدام نے بتایا کہ ’ایک طرف پانی کی آواز بڑھتی رہی اور پھر جب ہم نے باہر نکل کر دیکھا تو دوسرے لوگ بھی ہمیں وہاں سے نکلنے کے لیے چیخ و پکار کر رہے تھے، جس پر ہمیں بھی خطرے کا احساس ہوا۔
’ہم جلدی جلدی گھر والوں اور بچوں کو نکال کر اونچے مقام پر لے گئے اور پھر کوشش کی کہ گھر سے کچھ سامان بھی نکال لیں لیکن اس وقت پانی نے آگے بڑھنے سے روک دیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صدام نے بتایا کہ ’ہمارا 150 سے زائد درختوں کا باغ تھا، جس میں سیب اور دوسرے پھل دار درخت تھے، جس کی وجہ سے ہمارا سالانہ اچھا گزارا ہو رہا تھا۔ وہ بھی اب ختم ہوچکا ہے۔ چند درخت رہ گئے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سب سے پہلے جب زیادہ پانی آیا تو اس نے ہمارے گھر کو نشانے پر رکھا اور اسے چند لمحوں میں بہانے کے بعد باغ بھی ساتھ لے گیا۔ پھر جو کچھ بھی راستے میں آیا پانی اس کو روندتا ہوا آگے چلا گیا۔‘
صدام نے بتایا کہ ان کے گھر میں پانچ کمرے اور ایک مہمان خانہ تھا۔ ’حال ہی میں میری شادی ہوئی تھی، جس کے لیے بڑے پیسے خرچ کر اپنا کمرہ تیار کیا تھا، جس میں فرنیچر اور چھت وغیرہ پر بھی کام ہوا تھا۔ وہ سب کچھ ختم ہوگیا۔
’میں نے اپنے کمرے اور سامان پر 11 لاکھ روپے خرچ کیے تھے، مگر اب گھر مکمل تباہ ہوچکا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اگر میں اس صورت حال کو دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ہم 20 سال پیچھے چلے گئے ہیں۔ باغ کو دوبارہ بنانے میں بھی 13 سے 15 سال کا عرصہ درکار ہے۔‘
بقول صدام: ’ایک درخت کو پھل دار بنانے میں چار سے پانچ سال لگتے ہیں۔ اس طرح پورا باغ لگانے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ اب تو سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔ گھر بھی چلا گیا اور باغ بھی۔ سیب تیار تھے اور ہم ان کو منڈی تک لے جانے کی تیاری کر رہے تھے۔‘