انڈیا کی ریاست اترپردیش کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا سر سید ہاؤس اب ایک عجائب گھر ہے لیکن 1947 میں آزادی کے بعد اسے اینیمی پراپرٹی یعنی ’دشمن کی جائیداد‘ قرار دے کر سرکاری نگہبانی میں لے لیا گیا تھا۔
سر سید ہاؤس میں اب ایک عجائب گھر اور سر سید اکیڈمی قائم ہے جس کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی تو سر سید ہاؤس کو دشمن کی جائیداد کی حیثیت دے دی گئی کیونکہ سر سید احمد خان کا کوئی وارث انڈیا میں موجود نہیں تھا۔‘
13.7 ایکڑ پر محیط یہ وسیع عمارت کبھی انگریز فوج کا میس ہوا کرتی تھی جسے سر سید احمد خان کے بیٹے سید محمود نے 1876 میں خرید کر انہیں تحفے میں دیا تھا۔
ڈاکٹر شاہد نے کہا کہ ’سر سید احمد خان نے بنارس میں اپنی سرکاری نوکری سے ریٹائرمنٹ لی اور اس کے بعد انہوں ںے علی گڑھ میں آ کر رہنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ان کی کالج کی تحریک عنقریب شروع ہونے والی تھی۔
’ان کے بیٹے سید محمود نے یہ سر سید ہاؤس ان کو خرید کر دیا۔ اس سے پہلے یہ برطانوی فوج کا ایک میس ہوا کرتا تھا۔ 13 ایکڑ سے زائد وسیع رقبے پر یہ عمارت تھی۔ اس کو انہوں نے خریدا اور اپنے والد کو تحفے میں پیش کیا۔ اس کے بعد سر سید احمد خان یہاں رہنے لگے اور یہیں پر کالج کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔‘
ڈاکٹر شاہد کہتے ہیں کہ ’سر سید احمد خان کے انتقال کے بعد بہت سے وائس چانسلر خاص طور سے سر راس مسعود، سر ضیاالدین نے بحیثیت وائس چانسلر اس کے لاؤنج کو استعمال کیا۔
’اس کے علاوہ یہاں بہت عرصے تک انگلش ہاؤس بھی مقیم رہا جہاں کالج کے لڑکوں کو تربیت دینے کے لیے ایک ہاسٹل ہوا کرتا تھا۔‘
عمارت کو ’دشمن کی جائیداد‘ قرار دیے جانے کے حوالے سے ڈاکٹر شاہد کا کہنا تھا کہ راس مسعود کے بیٹے انور مسعود اور اکبر مسعود نے پاکستانی شہریت اختیار کر لی تھی، اس لیے یہ عمارت سرکاری نگہبانی میں چلے گئی تھی۔
’پھر کرنل بشیر حسین زیدی کی وائس چانسلرشپ میں انہوں نے کوشش کر کے انڈیا کی حکومت سے اسے دوبارہ خریدا۔ پھر اسے دوبارہ سے تعمیر کیا گیا لیکن بنیادیں وہی رہیں جو سر سید ہاؤس کی تھیں۔‘
اس عمارت میں سر سید احمد خان نے 22 برس تک قیام کیا۔
سر سید ہاؤس مختلف ادوار میں مختلف کاموں کے لیے استعمال ہوا کرتا تھا لیکن 1969 سے مستقل طور پر یہ سر سید ہاؤس کے نام سے ہی منسوب ہے جہاں سر سید اکیڈمی اور عجائب گھر کے دفاتر قائم ہیں۔
اس عجائب گھر کا آرکائیو شعبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیوںکہ اس آرکائیو میں میوزیم اور اس سے متعلق تمام دستاویزات محفوظ ہیں۔
آپ جب اس میوزیم میں داخل ہوتے ہیں تو بائیں ہاتھ پر سر سید سے متعلق کچھ سامان جسے وہ استعمال کرتے تھے، مثلاً سر سید احمد خان کی چھڑی، گھڑی، رومال، میز کرسی کے علاوہ صوفے وغیرہ موجود ہیں اور شاعر مشرق علامہ اقبال کے شعر کا ایک مصرعہ ’ہے دلیری دستِ اربابِ سیاست کا عصا‘ سے ان سامانوں کی طرف نسبت کی گئی ہے۔
میوزیم کے دوسرے کمرے میں ایک کتب خانہ ہے جس میں سر سید احمد خان کی تحریر کردہ کتابوں کے علاوہ سر سید تحریک اور علی گڑھ تحریک سے متعلق کتابیں موجود ہیں۔
جب سر سید احمد خان نے اس ادارے کی بنیاد ڈالی تو اس وقت کی تصویریں دیوار پر آویزاں کی گئی ہیں اور وہیں اس دور کی ایک شیروانی بھی بطور نشانی موجود ہے۔