ایشیا کپ کے فائنل سے پہلے فائنل میں پہنچنے والی سپر فور مرحلے کی دو ناقابل شکست ٹیموں میں سے ایک یعنی پاکستان کو ہار کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔
اس شکست سے ویسے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر سری لنکا کے اعتماد اور پاکستان کی پریشانی میں اضافہ ضرور ہونے والا ہے۔
اتوار کو کھیلے جانے والے فائنل میچ سے قبل جمعے کو سری لنکا اور پاکستان آمنے سامنے آئے تو ایشیا کپ کی میزبان ٹیم ٹاس کے موقع پر ہی آدھا میچ جیت چکی تھی۔
آج ہی اپنی سالگرہ منانے والے سری لنکن کپتان نے پہلے تو ٹاس جیتا، پھر پاکستان کو کم سکور پر آؤٹ کیا اور اس کے بعد آرام سے جیت بھی گئے۔۔۔۔ سالگرہ پر اس سے اچھا اور کیا ہو سکتا تھا۔
Lions go marching on and on!
— Sri Lanka Cricket (@OfficialSLC) September 9, 2022
Sri Lanka finish the super 4 round of the #AsiaCup2022 UNBEATEN!
That's a great birthday present for skipper Dasun Shanaka! #RoaringForGlory #SLvPAK pic.twitter.com/8OFZN3W5Yb
پاکستان نے اس میچ کے لیے ٹیم میں دو تبدیلیاں کیں اور حسن علی اور عثمان قادر کو شاداب خان اور نسیم شاہ کی جگہ کھلانے کا فیصلہ کیا۔
اور یہی دو تبدیلیاں پاکستان کو راس نہ آئیں۔ صرف 122 رنز کے ہدف کے دفاع میں ان دو بولرز نے سات اووروں میں 59 رنز دیے اور ایک وکٹ حاصل کی۔
ان دونوں کا زکر کرنے کا مقصد تمام قصور ان پر ڈالنا نہیں لیکن اگر دیگر بولروں کی کارکردگی دیکھیں تو بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔
It was on Lighter note pic.twitter.com/BTdaBIa1AT
— ٰImran Siddique (@imransiddique89) September 9, 2022
سری لنکا نے پاکستان کے 122 رنز کے ہدف کے تعاقب میں اننگز کا آغاز کیا تو پہلے ہی اوور میں اس کا ان فارم بلے باز کوشل مینڈس بغیر کوئی رنز بنائے محمد حسنین کا شکار بنے۔
اگلے ہی اوور میں دنوشکا گناتھیلکا بھی حارث رؤف کی گیند پر صفر پر پویلین لوٹ گئے۔
اس موقع پر سری لنکا بظاہر دباؤ میں دکھائی دے رہا تھا اور 29 کے مجموعی سکور پر اپنی ٹیم کو تیسری کامیابی بھی دلا دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تین وکٹیں گرنے کے بعد سری لنکا کو رنز بنانے میں دشواری ہو رہی تھی لیکن نہ جانے بابر اعظم کو کیا خیال آیا اور انہوں نے محمد حسنین اور حارث رؤف کے اوور بچانے کا فیصلہ کیا اور گیند حسن علی اور محمد نواز کو تھما دی۔
محمد نواز نے ایک بار پھر عمدہ بولنگ کی اور رنز بھی نہیں دیے مگر انہیں وکٹ بھی نہیں ملی، اور اتنے کم سکور کو بچانے کے لیے آپ کا وکٹ لینا ضروری ہوتا ہے۔
دوسری طرف حسن علی کے تین اووروں میں پانچ چوکے لگے جبکہ دوسرے اینڈ سے بولنگ کے آئے آنے والے عثمان قادر کے چار اووروں میں تین چھکے لگے اور انہوں نے ایک وکٹ لے کر 34 رنز دیے۔
پاکستان اس موقع پر شدت سے وکٹ کی تلاش میں تھا اور ایسے میں 16ویں اوور میں حسن علی کی ایک گیند پر کیچ کی اپیل کی گئی اور محمد رضوان نے ریویو کا اشارہ کیا۔
ایمپائر نے اس اشارے کو حتمی سمجھتے ہوئے تھرڈ ایمپائر سے رابطہ بھی کر دیا۔ اس پر بابر اعظم یہ کہتے دکھائی دیے کہ ’میں کپتان ہوں۔‘ بظاہر یہ ایک غلطی فہمی کے باعث ہوا۔ تاہم اس پر وکٹ بھی نہ ملی اور ریویو ضائع ہو گیا۔
تاہم جب بابر اعظم نے اپنی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’میں کپتان ہوں‘ اس وقت ان کے چہرے پر ہلکی ہلکی مسکراہٹ تھی اور وہ زیادہ غصے میں دکھائی نہیں دیے۔
سری لنکا کی جانب سے اوپنر نسانکا پراعتماد انداز سے کریز پر جمے رہے اور دھیرے دھیرے رنز بناتے رہے۔ انہوں نے 48 گیندوں پر 55 رنز کی اننگز کھیلی اور آخر تک کریز پر رہے اور 17ویں اوور میں اپنی ٹیم کو پانچ وکٹوں سے فتح دلا دی۔
oh bhai yeh kya team hai. puri qaum ka taraa nikaal ke apas main catch catch khel rahe hain.
— Mazher Arshad (@MazherArshad) September 9, 2022
دوسری طرف اگر پاکستان کی بیٹنگ دیکھیں تو ایشیا کپ میں مسلسل خراب کارکردگی دکھانے والے بابر اعظم اس میچ میں پاکستان کے لیے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز رہے۔ انہوں نے 29 گیندوں پر 30 رنز بنائے۔
بابر اعظم نے میچ کے بعد کہا کہ ’ہم پارٹنرشپ نہ بنا سکے۔‘
انہوں نے ایسا اس لیے کہا کیونکہ فخر زمان اور افتخار احمد 13، 13 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ خوشدل شاہ صرف ہانگ کانگ کے خلاف ہی چھکے مارنے کے بعد سے مسلسل ناکام رہے ہیں اور آج بھی چار رنز ہی بنا سکے۔
Good practice match. Ab Sunday ko serious hojana boys #slvpak #asiacup2022
— Asim Azhar (@AsimAzharr) September 9, 2022
سوشل میڈیا پر تنقید کا سامنا کرنے والے آصف علی اور حسن علی کوئی رن نہ بنا سکے۔
پاکستان کے لیے سب سے لمبی پارٹرنرشپ 35 رنز کی تھی۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ پاکستانی بلے بازوں کے پاس سری لنکن سپنرز کا کوئی جواب نہیں تھا۔
اور 11 ستمبر کو ہونے والے ایشیا کپ کے فائنل میں بھی پاکستان کو انہی سپنرز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سپنرز کے ساتھ ساتھ پاکستان کو یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ سری لنکا لگاتار چار میچ جیت چکا ہے اور مسلسل ہدف کے تعاقب میں بھی کامیاب رہا ہے۔