پاکستان میں حالیہ مون سون بارشوں کے بعد سیلاب سے جہاں بڑی تعداد میں عوام براہ راست متاثر ہوئے ہیں وہیں بعض علاقوں میں ریلوے آپریشن بند ہونے سے وہ ہزاروں افراد بھی پریشان ہیں جن کا روزگار ریلوے سے جڑا ہے۔
مسافروں کا سامان سٹینڈ سے ٹرین تک اور ٹرین سے اتار کر 50 سے زائد سیڑھیاں چڑھ کر پہنچانے والے قلی ان ہزاروں متاثرین میں شامل ہیں۔
روہڑی ریلوے سٹیشن پر گذشتہ 30 سال سے کام کرنے والے نصیر ساکھانی قلی یونین کے صدر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روہڑی ریلوے سٹیشن پر 160 قلی مال برداری جیسا سخت کام کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے نصیر ساکھانی کہتے ہیں کہ روہڑی ریلوے سٹیشن پر سندھ کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے مزدور بطور قلی کام کرتے ہیں۔
’یہ قلی روز مجھ سے فون کر کے ٹرین چلنے کا پوچھتے ہیں اور اپنے دکھی حالات بتاتے ہیں۔ کرونا کے دوران تو سابق وزیر ریلوے شیخ رشید نے راشن فراہم کیا تھا تاہم اس بار ابھی تک کسی نے خبر گیری نہیں کی۔‘
روہڑی ریلوے سٹیشن پر گذشتہ 30 سال سے کام کرنے والے نصیر ساکھانی جو قلی یونین کے صدر بھی ہیں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’روہڑی ریلوے سٹیشن پر پر 160 قلی سامان اٹھانے جیسا مشکل کام کر کے اپنے خاندان کا پیٹ پالتے ہیں۔ اس سٹیشن پر سندھ کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے مزدر و قلی کا کام عرصہ دراز سے کرتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ٹرینوں کی بندش کے باعث قلیوں کا گزر اوقات بہت مشکل ہوگیا ہے۔ روز قلی مجھ سے فون کرکے ٹرین چلنے کا پوچھتے ہیں اور اپنے حالات بتاتے ہیں۔‘
گذشتہ 40 سال سے قلی کا کام کرنے والے سعید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم روز کمانے اور روز کھانے والے ہیں ٹرین کی بندش کے بعد شروع کے چند دن تو مسجد سے کھانا آجاتا تھا مگر اب تو وہ سلسلہ بھی بند ہو گیا ہے۔‘
سعید کے مطابق ’دکانداروں نے ادھار دینا بند کر دیا ہے۔ بچوں کی فاقہ کشی بہت ستاتی ہے۔ ہماری کسی نے مدد نہیں کی۔ ہم سفید پوشی میں کسی سے بھیک بھی نہیں مانگ سکتے۔ ہماری اپیل ہے مخیر حضرات سے خدارا ہماری عزت نفس اور سفید پوشی کا احترام کرتے ہوئے ہماری مدد کی جائے۔‘
سعید احمد نے بتایا کہ ’ہم لوگ اور کوئی کام کر نہیں سکتے جبکہ موجودہ حالات میں تو ہمیں کوئی دیہاڑی پر بھی کام پر نہیں رکھتا ہے۔‘
پاکستان ریلوے کو کتنا نقصان ہوا؟
سیلاب سے خود پاکستان ریلوے کو بھی بھاری مالی نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان ریلویز کے ترجمان بابر رضا نے انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار فاطمہ علی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’مختلف علاقوں میں سیلاب اور بارشوں کے سبب ٹرینیں بند ہونے کے سبب پاکستان ریلوے کو کافی نقصان ہوا ہے۔ پاکستان ریلوے روزانہ کی بنیاد پر 11 کروڑ پچاس لاکھ روپے کا نقصان اٹھا رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان ریلوے سیلاب سے پہلے روزانہ 16 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زیادہ کی آمدن حاصل کرتی تھی۔ سیلاب کی وجہ سے چونکہ بیشتر ٹریکس متاثر ہوئے اور ٹرینیں بند ہوگئیں اس لیے یہ ریونیو آج کل پانچ کروڑ روپے سے نیچے آگیا ہے۔‘
بابر رضا نے بتایا کہ ’اس بار ریلوے ملازمین کو تنخواہ بھی کافی دیر سے ملی ہے جبکہ عام حالات میں تنخواہیں لیٹ نہیں ہوتیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بابر رضا نے مزید بتایا: ’اگر دیکھا جائے کہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان ریلوے کو انفراسٹرکچر کی مد میں کتنا نقصان ہوا ہے تو ابتدائی طور پر تو جو تخمینہ لگایا گیا ہے اس کے مطابق پاکستان ریلوے کو صرف انفراسٹرکچر کی مد میں اب تک 10 ارب کا نقصان ہوا ہے۔ اس کے علاوہ جن جگہوں سے پانی ابھی اترا ہی نہیں ان جگہوں پر ہونے والے نقصان کا تخمینہ ہم نے ابھی لگانا ہے۔‘
ان کا اندازہ تھا کہ اس پل کی تعمیر میں تین ماہ یا اس سے زیادہ کا عرصہ لگ سکتا ہے کیونکہ ایک پل کی تعمیر میں بہت زیادہ کام ہوتا ہے۔ رضا کا کہنا تھا کہ جہاں تک کراچی اور سندھ کی بات ہے تو امید ہے کہ چند روز میں ٹریک بحال کر دیا جائے گا۔
’اس وقت لاہور سے کراچی تک کوئی ٹرین نہیں جا رہی نہ ہی گڈز ٹرین نہ ہی مسافر ٹرین کیونکہ وہاں کا سارا ٹریک خراب ہو چکا ہے۔
دوسری جانب پاکستان ریلوے پولیس کے ترجمان کنور عمیر ساجد نے انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار فاطمہ علی سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’اس وقت سب سے بڑا مسئلہ رابطے کا ہے کیونکہ سندھ اور بلوچستان میں سگنلز کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ چونکہ وہاں انٹرنیٹ بھی نہیں چل رہا اس لیے رابطے میں دقت پیش آرہی ہے خاص طور پر بلوچستان میں۔‘
’لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں انہیں سامان دینے میں مشکل آئی کیونکہ ہنگامی بنیادوں پرہم کچھ کام کر سکیں اس کے لیے ہمارے پاس ابھی کوئی فنڈ مخصوص نہیں ہیں۔ لیکن پھر بھی پاکستان ریلویز اور پولیس ساتھ مل کر جس حد تک کام کر سکتی تھی وہ کیا گیا۔‘
ایک جانب سیلاب کی وجہ سے ٹرینیں بند ہونے سے محکمہ ریلوے کو بڑے نقصان کا سامنا ہے جبکہ دوسری جانب مسافروں کا سامان ٹرینوں چڑھانے اور اتارنے والے قلی بھی ٹرینوں کی بندش سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
ریلوے سٹیشن پر جوسز، چپس، بسکٹ اور دودھ سمیت دیگر اشیا فراہم کرنے والے (ایف ایم جی سی) کے ڈسٹری بیوٹر رضوان ملک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمارے پاس مختلف کمپنیوں کی ڈسٹری بیوشن ہے، ہماری ماہانہ سیل کا 50 فیصد ٹارگٹ روپے سٹیشن پر سپلائی سے پورا ہوتا ہے۔
’صرف سٹیشن پر سپلائی کے لیے 10 سے زائد سیلز مین کا روزگار وابسطہ ہے، اس صورت حال میں اس سیلز مین کو سیلز ٹارگٹ پورا نہ کرنے پر تنخواہ تو مل پائے گی مگر ایک اچھے خاصے بونس کی رقم سے محروم ہوجائیں گے۔ جبکہ ہماری سیل میں کمی سے یقیناً ہمارا منافع بھی کم ہوگا اور سیلز ٹارگٹ کو پورا کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘