عالمی شدت پسند تنظیم القاعدہ نے اپنے میگزین ’ون امہ‘ کے تازہ ترین شمارے میں افغانستان کی زمین سے امریکہ پر حملے بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ افغانستان امریکی تسلط سے آغاز ہو گیا ہے اس لیے امریکہ کے خلاف یہاں سے کارروائیاں بند کر دی گئی ہیں۔
القاعدہ نے اپنے فلیگ شپ میگزین ’One Ummah’ کے تازہ ترین شمارے میں افغانستان سے امریکہ کے انخلا اور کابل پر طالبان کے قبضے کے بارے میں لکھے گئے مضمون کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ القاعدہ کی جانب سے نہایت اہمیت کا حامل بیان ہے۔
یہ میگزین ستمبر کی 11 تاریخ کو شائع کیا گیا ہے جس میں دیگر موضوعات سمیت افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا اور امریکہ کو ’افغانستان میں شکست‘ کے حوالے سے مضامین لکھے گئے ہیں۔
اس میگزین کے پیش لفظ میں شائع مضمون میں لکھا گیا ہے کہ ’افغانستان میں امریکہ کو ایسا سبق دیا گیا ہے کہ وہ دوبارہ افغانستان کی زمین پر قدم رکھنے کی غلطی نہیں کرے گا۔‘
مضمون کے مطابق ’افغانستان میں امریکہ کو شکست یہ بات ثابت کرتی ہے کہ یہ مسلمانوں کی نفسیات میں شامل ہے کہ وہ کسی بھی مغربی قوت کا تسلط برداشت نہیں کرتے۔ قبائلی اضلاع جن میں چترال، سوات، خیبر، وزیرستان، پنجاب کے کچھ وفادار، باجوڑاور بلوچستان کے لوگ شامل ہیں، ہماری داد کے مستحق ہیں جنھوں نے افغان طالبان کو فتح دلانے میں ساتھ دیا ہے۔‘
میگزین کے پیش لفظ میں اس مضمون کا خلاصہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ’چونکہ افغانستان پر مغربی تسلط ختم ہو چکا ہے تو افغانستان کی زمین سے امریکہ کے خلاف کارروائیاں ختم ہوگئی ہیں۔ تاہم امریکہ کے خلاف یہ جنگ دنیا کی دیگر جگہوں سے جاری رہے گی۔‘
اسی میگزین کے ایک مضمون ’امریکہ جل رہا ہے‘ میں ایک جگہ پر مضمون نگار نے لکھا ہے کہ ’ابھی افغانستان آزاد ہوا ہے، لیکن اب وہ وقت دور نہیں کہ اسلام آباد، دہلی، موگادیشو اور صنعا بھی آزاد ہو جائیں گے۔‘
مبصرین کیا کہتے ہیں؟
مبصرین القاعدہ کی جانب سے ان کے رہنما ایمن الظواہری کی کابل میں ڈرون حملے میں مبینہ ہلاکت کے بعد اس بیان کو نہایت اہم سمجھتے ہیں۔ تاہم القاعدہ نے ابھی تک ایمن الظواہری کی موت کی تصدیق نہیں کی ہے۔
دفاعی امور کے تجزیہ کار بریگیڈیئر(ر) محمود شاہ سمجھتے ہیں کہ ’القاعدہ تقریبا ختم ہوچکی ہے اور اسامہ بن لادن کے زندہ ہونے تک یہ تنظیم فعال تھی تاہم اب یہ تقریباً ختم ہو چکی ہے۔‘
محمود شاہ نے انڈپیندنٹ اردو کو بتایا کہ ’القاعدہ میرے خیال میں افغانستان اس لیے آئی تھی کہ وہ افغانستان، وسطی ایشیا اور پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتی تھی لیکن وہ اس مقصد میں ناکام ہوئی ہے۔ اب افغانستان میں القاعدہ تقریباً ختم ہوگئی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’امریکہ نے افغانستان میں افغان طالبان کو شکست تو نہیں دی تاہم یہ ضرور ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں القاعدہ کو ضرور شکست دی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’القاعدہ کی جانب سے ایسے بیانات صرف بیانات ہی ہیں اور القاعدہ اب اتنی مضبوط نہیں کہ وہ کارروائیاں جاری رکھ سکے۔ یہ بیان اس تناظر میں بھی آیا ہے کہ افغان طالبان نے امریکہ کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے کہ وہ کسی شدت پسند تنظیم کو افغانستان میں کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اسی لیے القاعدہ نے یہ بیان دیا ہے کہ اب وہ دوسری جگہوں سے امریکہ پر حملے جاری رکھے گی۔‘
پروفیسر عرفان اشرف پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں پڑھاتے ہیں اور شدت پسندی کے حوالے سے مختلف تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ القاعدہ کی جانب سے یہ بہت دلچسپ بیان سامنے آئی ہے۔ اس میں حقیقت ہے کہ افغانستان کے بعد اب القاعدہ کو دیگر جگہوں یعنی افریقی ممالک میں مقامی حمایت ملتی ہے تو وہاں سے وہ کارروائیاں کر سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’افغانستان میں اب بھی امریکہ کی نگرانی جاری ہے اور وہاں سے اب القاعدہ کارروائیاں نہیں کر سکتیں۔ گو کہ القاعدہ کمزور ہو چکی ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ وہ ختم ہو چکی ہے۔‘
ان کے مطابق ’القاعدہ کی کچھ لیڈرشپ اب بھی ایران، عرب ممالک اور مقامی سطح پر موجود ہے۔ القاعدہ ختم نہیں ہوئی اور ایران میں موجود القاعدہ رہنما کسی بھی وقت ان کو استعمال کر سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’پہلے لوگ سمجھتے تھے کہ افغانسان میں داعش القاعدہ کو سپورٹ کرے گی تاہم عراق کے بعد ایسا نہیں ہوا، کیونکہ اب داعش افغانستان کو اپنا مرکز سمجھتی ہے۔ جبکہ القاعدہ یہاں سے جا رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قیادت میں ہم آہنگی نہیں ہے۔‘
عرفان اشرف کے مطابق ’داعش اور القاعدہ کے نچلے رینکس کے مابین ایک دوسرے کو حمایت حاصل ہوگی تاہم مرکزی لیڈرشپ کے درمیان ایسی کوئی ہم آہنگی نظر نہیں آرہی اور ایمن الظواہری کے بعد امریکہ نے توجہ افغانستان پر رکھی ہے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی جانب سے القاعدہ کو حمایت فراہم کی جا رہی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’امریکہ نے افغان طالبان پر معاشی پابندیاں بھی عائد کر رکھی ہیں اور ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد افغان طالبان کے اندر بھی گروپ بندی نظر آرہی ہے۔ جس میں ایک قندہار گروپ ملا یعقوب اور ملا ہبت اللہ وغیرہ ہیں، جبکہ دوسرا گروہ حقانی نیٹ ورک کا ہے۔‘
عرفان اشرف کہتے ہیں کہ ’افغان طالبان کے مابین کشمکش ضرور موجود ہے کہ ایمن الظواہری کو ٹارگٹ کرنے کے لیے مخبری کس کی طرف سے کی گئی ہے کیونکہ کسی بھی ہدف کو مارنے کے لیے امریکہ کو مخبری کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اب کابل محفوظ نہیں رہا اور یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان بھی اپنے آپ کو القاعدہ سے الگ کرنا چاہتے ہیں اور القاعدہ بھی یہی چاہتی ہے کہ وہ ایسا پروپیگینڈا کرے کہ دنیا کو یہ بتایا جا سکے کہ افغانستان اب اس کے لیے محفوظ نہیں رہا۔‘
ڈاکٹر عرفان اشرف نے مزید کہا کہ ’افغانستان میں القاعدہ تو کیا اب وہاں افغان طالبان بھی محفوظ نہیں ہیں کیونکہ امریکہ کی جانب سے ڈرون سرویلنس مسلسل ہو رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ القاعدہ نے اپنی کارروائیاں افغانسان سے ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔‘
اس بارے میں امریکہ میں مقیم جنوبی ایشیا کے سکیورٹی امور کے ماہر اسفندیار میر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بنیادی طور القاعدہ کی جانب سے یہ بات اسی میگزین کے عربی ورژن میں رواں سال فروری میں سامنے آئی تھی اور ابھی جو آیا ہے یہ اس میگزین کا انگریزی ترجمہ ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’امریکہ پر افغانستان کی زمین سے حملے نہ کرنے کا اعلان القاعدہ کے مرکزی تنظیم کی جانب سے آیا ہے نہ کہ AQIS(القاعدہ برصغیر) کی طرف سے، جو جنوبی ایشیا کی القاعدہ کی تنظیم ہے۔‘
اسفندیار نے بتایا کہ ’فروری میں القاعدہ کی جانب سے اس اعلان کا آنا دراصل طالبان کی تابعداری کا مظاہرہ کرنا تھا کیونکہ افغان طالبان کا امریکہ کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا اور القاعدہ نے پس پردہ طالبان کو یہ باور بھی کرایا تھا کہ وہ قطر معاہدے کی پاسداری کریں گے۔‘
اسفندیار سے جب پوچھا گیا کہ اگر افغانستان نہیں تو القاعدہ امریکہ کے خلاف کہاں سے کارروایئاں کر سکتی ہے، اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’القاعدہ کے جنوبی ایشیا چیپٹر میں زیادہ تر جنگجو پاکستانی ہے اور افغانستان کے قریب ہونے کی وجہ سے القاعدہ کے لیے پاکستان کی زمین استعمال کرنا آسان ہے۔‘
ان کے مطابق ’صومالیہ میں الشباب گروپ کو جو القاعدہ کی ذیلی تنظیم ہے، بھی اس مشن میں القاعدہ استعمال کر سکتی ہے اور صومالیہ سے کارروایئاں کر سکتی ہے۔‘
مبصرین کے مطابق اہم بات یہ نہیں کہ القاعدہ افغانستان سے نکل رہی ہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ القاعدہ مستقبل کے لیے کیا منصوبہ رکھتی ہے۔
القاعدہ کی جانب سے اس نئے بیان اور اس میں پاکستان کا ذکر کرنے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے وزارت خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار کے ساتھ رابطہ کیا لیکن انہوں نے کوئی موقف نہیں دیا۔
اسی سلسلے میں وزارت خارجہ کے سرکاری ای میل پر موقف کے لیے پیغام بھیجا گیا ہے لیکن اس رپورٹ کے شائع ہونے تک ان کی جانب سے بھی کوئی موقف موصول نہیں ہوا۔