جو ہو رہا ہے، صحیح ہو رہا ہے۔۔۔
ذہن ماؤف ہے۔ سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔ خیال پکڑ میں نہیں آ رہا۔ الفاظ ساتھ نہیں دے رہے۔ لکھیں تو کیا لکھیں۔ بولیں تو کیا بولیں؟
لکھنے والے وہی کچھ لکھ رہے ہیں بولنے والے بھی وہی سب بول رہے ہیں۔ ہر طرف، ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ انتشار ہے، پریشانی ہے، بےیقینی ہے، لیکن پھر آخر کچھ تبدیل کیوں نہیں ہوتا؟ مہنگائی ہے، ٹیکسوں کی بھرمار ہے، ہڑتالیں ہیں، احتجاج ہے، ملکی اور غیرملکی معاشی ادارے بار بار اشارہ کر رہے ہیں کہ آگے گہری کھائی ہے لیکن تبدیلی کی منہ زور سواری ہارن اور اشارے کے بغیر، بنا بریک دبائے سرپٹ دوڑی جا رہی ہے۔ یا تو حکومت کو تاحال سمجھ نہیں آیا کہ اس مشکل صورتحال میں سے نکلنا کیسے ہے یا پھر کچھ زیادہ ہی سمجھ آ چکا ہے جسے دوسرے الفاظ میں حد سے زیادہ خود اعتمادی کہتے ہیں۔
تاجروں نے ملک گیر ہڑتال کی، کراچی سے پشاور تک شڑڈاؤن ہو گئے، ایک ہی دن میں معیشت کے اربوں ڈوب گئے لیکن حکومت نے اسے بھی سیاسی تالہ بندی قرار دے دیا۔ آج کی ہڑتال کو گذشتہ حکومتوں کی نااہلی گردان دیا۔ فیکٹریاں، ملیں، دکانیں، کاروبار بند ہو رہے ہیں لیکن حکومت کہتی ہے کہ یہ سب چور ہیں اس لیے ہڑتال پر ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ گذشتہ چور حکومتوں نے معاشی طبقے کی عادت ہی خراب کر دی ہے۔ ارے بھئی کوئی تاجر کی تو سنے، کوئی صنعت کار کی بات پر کان تو دھرے۔ تاجر کہتے ہیں حکومت ملاقات تو کرتی ہیں لیکن کام کی بات نہیں کرتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومتی پالیسیوں سے تاجر اور صنعت کار نالاں ہیں لیکن حکومت بھی ضد پر قائم ہے۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے بھی کچھ خاص ہاتھ نہ آیا۔ شور تو سنا تھا کہ اثاثے ظاہر نہ کرنے والے قانون کی سخت پکڑ میں آئیں گے لیکن فی الحال اکادکا ہلکی پھلکی کارروائی کے علاوہ کوئی سخت کریک ڈاؤن نظر نہیں آیا۔
ادھر سے ن لیگ کے کسی بندے کی زمین ضبط کر لی، ادھر سے پیپلز پارٹی کے کسی بندے کی جائیدادیں۔۔۔ میڈیا پر خبریں چلیں، سوشل میڈیا پر واہ وا ہوئی اور اس کے بعد کام ٹھپ۔۔۔ کریک ڈاؤن پر تالا پڑ گیا۔ اب تو صاف لگتا ہے کہ تبدیلی ’سٹیٹس کو‘ بن گئی ہے۔ خود حکومت جتنی کنفیوز ہے، اس سے کہیں زیادہ اپوزیشن بےیقینی کا شکار ہے۔
بھلے لوگوں سے بھلا کوئی پوچھے کہ چیئرمین سینیٹ تبدیل کروا کے آپ نے کون سا تیر مار لینا ہے یا کون سے عوامی مسائل حل کر لینے ہیں۔۔۔؟ اگر مقصد محض عمران خان کو نیچا دکھانا ہے تو یہ کام تب کیوں نہ کیا جب قائد ایوان کے لیے شہباز شریف امیدوار تھے۔۔۔؟ تب پیپلز پارٹی کس مصلحت کا شکار تھی۔۔۔؟ اور اگر مقصد مقتدر حلقوں کو پیغام پہنچانا ہے تو بلوچستان حکومت گرا کر اور صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنوا کر پیپلز پارٹی نے جو پیغام پہنچایا تھا اس کا کیا ہوا۔۔۔؟
معاملہ صرف اتنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ضد کی اور انا کی سیاست میں جکڑی ہیں۔ عوام کے مسائل کا ادراک نہ حکومت کو ہے نہ پریشانی اپوزیشن کو ہے۔ اپوزیشن روز کوئی نہ کوئی پینترا بدل رہی ہے لیکن کامیاب نہیں ہو پا رہی۔ بلاول بھٹو جلسے کر رہے ہیں۔ مریم نواز نے اپنے جلسوں کا اعلان کر دیا ہے۔ سب کی اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ الگ ہے۔ نہ کوئی مشترکہ حکمت عملی بن سکی، نہ ہی کوئی اس کے لیے سنجیدہ ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں سے جسے بھی، کسی بھی وقت، پہلے ریلیف مل گیا اسی نے ’ٹٹ گئی تڑک کر کے‘ کو عملاً سچ کر دکھانا ہے۔
فلور ملز والے اپنا سرپیٹ رہے ہیں لیکن حکومت ان کی سنتی نہیں۔ مسئلہ وہی ہے، بےپناہ اور بےجا ٹیکس کا۔ حکومت کہتی ہے دس اور 20 کلو آٹے کے تھیلے پر کوئی ٹیکس نہیں، مل مالکان کہتے ہیں 40 کلو اور اس سے اوپر کے تھیلوں پر ٹیکس ہے، گندم پر ٹیکس ہے جس سے کاروبار تباہ ہو رہا ہے۔ حکومت سے کئی بیٹھکیں ہوئیں لیکن سوال گندم جواب جو۔۔۔ نتیجہ کیا نکلا، گیہوں اور گھن والی چکی میں عوام پِس رہے ہیں۔
روٹی کی قیمت 15 روپے ہو گئی لیکن اپوزیشن کو تو چیئرمین سینیٹ تبدیل کروانا ہے۔ جس وقت یہ کالم آپ پڑھ رہے ہوں گے فلور ملز مالکان بھی ملک گیر ہڑتال پر ہوں گے اور حکومت اس کا ملبہ بھی گذشتہ حکومتوں کی چوری اور نااہلی پر ڈال رہی ہو گی۔
آئے دن سٹاک مارکیٹ 700، 800 پوائنٹس سے بیٹھنا اب معمول ہی بن گیا ہے۔ لیکن سٹاک مارکیٹ میں بھلا عوام کے پیسے تھوڑے لگے ہیں۔۔۔ بھلا بتائے کوئی کہ سٹاک مارکیٹ کی صورتحال کا عوامی مسائل سے کیا تعلق؟
ڈالر پھر 160 تک جا پہنچا۔ لیکن بھلا بتائے کوئی کہ ڈالر کے ریٹ کا عوامی مسائل سے کیا تعلق؟ ہر مسئلے کا جواز گذشتہ دس سال، ہر مسئلے کا جواب، دس ماہ میں کیا ہو سکتا ہے۔۔۔ عوام بے چارے پریشان ہیں، ذہن ماؤف ہے، انتشار ہے، بےیقینی ہے، اور ان سب کے جواب میں صرف ایک دلاسا ہے کہ ’اچھے دن آئیں گے۔‘
تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ جو ہو رہا ہے صحیح ہو رہا ہے۔